چین میں حکومت سے منظور شدہ مذہبی گروپوں نے امریکہ کی اس رپورٹ کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے جس میں چین میں مذہبی آزادی کی صورتِ حال پر "خصوصی تشویش " ظاہر کی گئی تھی۔
امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے رواں ہفتے کے آغاز پر جاری کی گئی 'انٹرنیشنل ریلیجیس فریڈم' رپورٹ میں 2010ء کی آخری ششماہی کی صورتِ حال کا جائزہ پیش کیا گیا تھا۔ رپورٹ میں چین سمیت آٹھ ممالک میں مذہبی آزادی کی صورتِ حال کو پریشان کن قرار دیا گیا ہے۔
چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی 'ژینہوا' نے بدھ کی شب حکومت سے منظور شدہ مذہبی گروہوں کا ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ رپورٹ میں ان بنیادی حقائق کو نظر انداز کیا گیا کہ چین کے قانون میں مذہبی آزادی، مذہبی حقوق اور مذہبی افراد کے مفادات کا مکمل تحفظ موجود ہے۔
بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ رپورٹ کا مقصد عالمی سطح پر چین کی ساکھ کو نقصان پہنچانا ہے۔
محکمہ خارجہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین میں حکومت سے منظور شدہ صرف پانچ "محب وطن مذہبی تنظیموں" کو رجسٹریشن کی اجازت دی گئی ہے اور یہی تنظیمیں مذہبی عبادات انجام دے سکتی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق بیان کردہ مدت کے دوران بیجنگ حکومت کا مذہبی آزادیوں کے احترام کا معیار قانوناً اور اس کے عمل درآمد میں زوال پذیر ہوا ہے۔
چینی حکومت پر سرکاری طور پر تسلیم نہ کیے جانے والے تبت کے بدھ باشندوں اور ایغور نسل کے مسلمانوں کی مذہبی آزادیوں کو پامال کرنے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے جبکہ کمیونسٹ حکومت کو ملک میں کالعدم قرار دی گئی روحانی تحریک 'فالن گانگ' کے پیرووں پر تشدد کے الزامات کا بھی سامنا رہا ہے۔