چین کے سرکاری خبررساں ادارے نے کہاہے کہ وسطی چین میں پولیس ویت نامی نسل سے تعلق رکھنے والی تقربیاً ایک سو خواتین کے بارے میں تحقیقات کررہی ہے جن کے بارے میں شبہ ہے کہ انہیں چینی مردوں کے پاس دلہن کے طورپر فروخت کردیا گیا ہے۔
چین کے اخبار چائنا ڈیلی نے لکھاہے کہ لاپتا ہونے والی خواتین کی پہلے سے ہی چینی مردوں سے شادی کی جاچکی تھی اور غائب ہونے سے قبل وہ ہنان صوبے کے دور افتادہ دیہاتوں میں رہ رہی تھیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس نے اپنی تحقیقات دو خاوندوں کو ٹیلی فون کال موصول ہونے کے بعد شروع کی ہیں جن میں ان سے تاوان کا مطالبہ کرتے ہوئے دھمکی دی گئی تھی کہ عدم ادائیگی کی صورت میں ان کی دلہنوں کو فروخت کردیا جائے گا۔
رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ مذکورہ خواتین کب سے لاپتا ہیں۔
شکایت کرنے والے ایک خاوند نے اخبار کو بتایا کہ اس نے 2008ء میں اپنی ویت نامی دلہن کے لیے تقریباً 5700 ڈالر ادا کیے تھے۔
اس مقدمے کے بارے میں خبریں ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب سرکاری میڈیا مسلسل خبردار کررہاہے کہ ملک میں جنسی تناسب کا بحران پیدا ہورہاہے اور چینی خواتین کی تعداد خطرناک حد تک گھٹ رہی ہے۔
مغربی تجزیہ کار اس صورت حال کا ذمہ دار کئی عشروں سے نافذ اس چینی قانون کو قرار دے رہے ہیں جس کے تحت ملک میں فی کنبہ ایک بچے کی پابندی عائد ہے۔ جب کہ چینی معاشرے میں لڑکوں لڑکیوں پر ترجیج دی جاتی ہے اور اگر لڑکی کی پیدائش متوقع ہوتو اکثر گھرانوں میں اقساط حمل کروا لیاجاتاہے۔
چین کے سرکاری خبررساں ادارے سنہوا نے پچھلے ہفتے اپنی ایک طویل رپورٹ میں خبردار کیاتھا کہ لڑکے کی پیدائش کے حصول کے لیے اقساط حمل سے جنسی تناسب بری طرح متاثر ہوہاہے۔ رپورٹ کے مطابق اس وقت میں شادی کی عمروں کو پہنچ جانے والے لاکھوں مردوں کو لڑکیوں کی تعداد میں شدید کمی کے باعث 2020ء تک کنوارہ رہنا پڑسکتاہے۔