چین میں والدین کو تین بچے پیدا کرنے کی ترغیبات کے باوجود شرح پیدائش میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔چین کے قومی شماریاتی ادارے کی جانب سے جنوری میں جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق چین میں 2021 میں 10اعشاریہ 62 ملین بچے پیدا ہوئے جو حالیہ برسوں میں ایک ریکارڈ کم تعداد تھی ۔
بیجنگ کے سرکاری اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ چین کی شرح پیدائش میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے حالانکہ 2021 سے جوڑوں کو تین بچے پیدا کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
نیشنل ہیلتھ کمیشن میں آبادی اور خاندانی امور کے سر براہ یانگ وین زہونگ نے چائنا پاپولیشن ایسو سی ایشن کی جولائی میں منعقدہ سالانہ کانفرنس کو بتایا تھا کہ چین کی آبادی میں 2025 تک کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔
سینٹر فار چائنا اینڈ گلوبلائزیشن میں ڈیمو گرافی کے ایک ماہر اور سینئیر ریسرچر ہوانگ وین زہنگ نے حکومت سے منسلک اخبار گلوبل ٹائمز کو بتایا ہے کہ یہ پیش گوئی کی جاسکتی ہے کہ چین میں شرح پیدائش ایک صدی سے زیادہ عرصے تک مسلسل کم ہوتی رہے گی۔
چین کے سرکاری مالیاتی میڈیا ادارے کے ایک تجزیے کے مطابق اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ چین میں نوجوان اور ادھیڑ عمر کے نوجوان روز گار کی تلاش میں دوسرے مقامات پر منتقل ہو رہے ہیں ۔ جب کہ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ موجودہ پریشان کن سیاسی فضا اور اقتصادی ماحول کی وجہ سے چین میں کچھ لوگ بچے پیدا کرنے سے ہچکچا رہے ہیں ۔
یونیورسٹی آف وسکانسن کے میڈیسن میں گائناکولوجی کے ایک سینئیر سائنٹسٹ فو شین یی نے وی او اے کی مینڈرین سروس کو بتایا کہ بہت سے چینی خاندان مکانوں کی بلند قیمتوں اور آمدنی میں کمی کی وجہ سے بچے پیدا کرنے سے گریزاں ہیں ۔
یی نے کہا کہ چین میں مکانات کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں جس کی وجہ سے عام لوگوں کے لیے بچوں کی پرورش دشوار ہو چکی ہے ۔ روزگار میں کمی اور بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا ہے ۔ کووڈ ٹیسٹنگ اور قرنطینہ کی پالیسیاں حاملہ خواتین کے لیے مسائل پیدا کر رہی ہیں اور چین کی معاشی ترقی انحطاط کا شکار ہے اور لوگ آمدنی میں کمی کی وجہ سےبچے پیدا کرنے سے کترا رہے ہیں ۔
یی نے بتایا کہ اگرچہ چینی حکام نے ایک بچہ پیدا کرنے کی 2013 کی پالیسی کو منسوخ کر کے 2016 میں دو بچے اور پھر 2021 میں تین بچے پیدا کرنے کی پالیسی متعارف کرائی لیکن حکومت ایسی پالیسیاں متعارف کرانے میں ناکام ہو گئی جن کی مدد سے بچوں کی پرورش کے اخراجات پورے ہو سکیں ۔
چین کے قومی صحت کے کمیشن نے آبادی میں کمی سے نمٹنے کے لیے اگست 2022 میں 14ویں پانچ سالہ منصوبے{ 2021-2025} کا اعلان کیا جس میں بچے پیدا کرنے کی عمر کی شادی شدہ خواتین پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ان کے لیے کم لاگت والے ہاؤسنگ لون یا کم آمدنی والوں کے لیے ہاؤسنگ ، دور دراز علاقوں سے ملازمت اور ملازمت کے دوران لچکدار اوقات کی پالیسیاں شامل ہیں جب کہ دو سال کی عمر کے بچوں کے لیے پری اسکولنگ کی اجازت دی گئی جو اس سے قبل صرف ایک سال کی عمر کے بچوں کو دی جاتی تھی۔
چین کے نیشنل ہیلتھ کمیشن اور نیشنل ڈویلپمنٹ اینڈ ریفارم کمیشن سمیت چین کے 17 قومی اداروں نے بچوں کی پیدائش میں اضافے سے متعلق پالیسیوں کا مشترکہ طور پر اعلان کیا ۔
چین کی رین من یونیورسٹی کے پروفیسر اور پاپولیشن اینڈ ڈویلپمنٹ ریسرچ سنٹر کے ڈپٹی ڈائریکٹر سونگ جیان نے حال ہی میں گلوبل ٹائمز کو بتایا کہ شادی شدہ جوڑوں کو بچے پیدا کرنے پر آمادہ کرنے کا انحصار اگست میں اعلان کیے گئے اقدامات پر عمل درآمد پر ہے ۔
ان اقدامات میں ان کی مالی مدد، بچوں کی دیکھ بھال کی سہولیات، تنخواہ کے ساتھ زچگی کی چھٹی کی فراہمی ، بچوں کی پرورش کے لیے اخراجات میں معقول حصہ ڈالنا ، بچوں کی پرورش کے لیے ایک سازگار سماجی ماحول کی تشکیل ، خاندان کی ضروریات پر توجہ مرکوز کرنا اور بچوں کی پرورش کرنے والے جوڑوں کے لیے کام اور خاندان کے درمیان توازن پیدا کرنا شامل ہیں ۔
لیکن نیویارک شہر میں انسانی حقوق کے ایک غیر سرکاری ادارے بیجنگ یی ریپنگ سینٹر کے شریک بانی، لو جن کے مطابق، ممکنہ والدین کے لیے مالی مسائل ہی بچے پیدا کرنے میں تامل کی واحد وجہ نہیں ہیں ۔
انہوں نے وی او اے کی مینڈرن سروس کو کو بتایا کہ یہ واضح ہو چکا ہے کہ چین میں سیاسی اصلاحات کا دروازہ مکمل طور پر بند ہو چکا ہے اور نوجوان لوگ اس ملک کے مستقبل کے بارے میں سوال کر رہے ہیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہے کہ چینی لوگ بچے نہیں چاہتے لیکن چین میں بہت سے لوگ اس لیے بچے پیدا کرنے پر تیار نہیں ہیں کیوں کہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ چین کے سیاسی اور اقتصادی امکانات تاریک ہیں اور وہ اپنے بچوں کے لیے ایک روشن مستقبل کے حصول کی خاطر ہجرت کی رفتار کو تیز کر سکتے ہیں ۔