شام کے صدر بشار الاسد نے حال ہی میں چین کا چار روزہ دورہ مکمل کیا ہے ۔ اس دورے کی اہمیت کا اظہار ان کے استقبال کی اہم اور رنگا رنگ سرگرمیوں سے ہوتا ہے۔ ان تقریبات کے دوران چین کی جانب سے شام کی تعمیر نو میں مدد کرنے کا وعدہ کیا گیا۔چینی صدر شی جن پنگ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’چین متعلقہ ممالک پر زور دیتا ہے کہ شام کے خلاف عائد تمام یک طرفہ غیر قانونی پابندیوں کو فوری طور پر ختم کر دیں۔‘‘
نیشنل پبلک ریڈیو کی نامہ نگار آیا بٹراوی نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ چین میں اسد کا استقبال ایک ایسے شخص کی حیثیت کو ’’بحال ‘‘ کرنے کی علامت ہے جو ’’اپنی حکومت کے خلاف عوامی بغاوت کو بموں اور پوری طاقت سے کچلنے کے بعد سے عالمی برادری سے خارج کئے جا چکے تھے ۔ آیا بٹراوی مزید کہتی ہیں کہ اس جنگ میں’’لاکھوں افراد ہلاک ‘‘ اور شام کے لاکھوں شہری بے گھر ہو گئے۔
اسد کے دورے میں دونوں ممالک کے درمیان ’’اسٹریٹجک پارٹنرشپ‘‘ کا قیام بھی عمل میں آیا۔ چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی سنہوا کے مطابق جمعے کے روز ’’ چینی صدر شی جن پنگ اور ان کے شامی ہم منصب بشار الاسد نے مشترکہ طور پر چین شام اسٹریٹجک پارٹنرشپ کے قیام کا اعلان کیا۔
‘‘ دونوں لیڈروں کے ساتھ ان کے معاون بھی موجود تھے اور جس کمرے میں ملاقات تھی اس میں دونوں ملکوں کے پرچم بھی آویزاں کیے گئے تھے۔ چین کے صدر شی نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات ’’بین الاقوامی تبدیلیوں کی آزمائش سے گزر چکے ہیں ۔‘‘
چینی رہنما نے مزید کہا کہ ’’چین غیر ملکی مداخلت اور یک طرفہ مخاصمت کی مخالفت کرنے کے لیے شام کے ساتھ ہے اور قومی آزادی، خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے تحفظ میں شام کی حمایت کرتا ہے۔‘‘
یہ شراکت داری مغرب کے لیے مشرق وسطیٰ میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے بارے میں ایک پیغام تھا۔
اس شراکت داری کو مکمل طور پر پروان چڑھانے کے لیے بیجنگ چاہتا ہے کہ مغرب سفارتی اور اقتصادی پابندیوں میں نرمی کرے جو شامی حکومت کے خلاف جنگی جرائم کے الزامات کے بعد عائد کی گئی تھیں۔
چینی صدر شی جن پنگ نے اسد کے ساتھ ملاقات کے دوران شام کی حمایت کا اظہار کرتے ہوئےبراہ راست اس مسئلے پر توجہ دی اور دعویٰ کیا کہ مغربی پابندیاں ’’غیر قانونی‘‘ ہیں۔
یہ بیان گمراہ کن ہے
اقوام متحدہ کی پابندیاں بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ہیں۔ جب کہ کسی ملک کی طرف سے انفرادی سطح پر عائد پابندیاں یک طرفہ ہیں۔ انفرادی سطح پر کسی ملک کی طرف سے عائد پابندیاں اس ملک کے قوانین کے مطابق قانونی تو ہیں لیکن دوسروں کو قانونی طور پر ان کا پابند نہیں کرتیں ۔
امریکہ، یورپی یونین، آسٹریلیا اور سوئٹزرلینڈ کی طرف سے اسد اور ان کی حکومت کے خلاف لگائی گئی پابندیاں یک طرفہ ہیں جس سے مراد یہ ہے کہ دوسری قومیں ان کی پابندی کرنےکے حوالے سے اپنی مرضی سے فیصلہ کر سکتی ہیں ۔ ایران، روس اور چین سمیت کچھ ممالک نے ان پابندیوں کے باوجود شام میں کاروبار جاری رکھا۔ شی نے اصطلاح میں موجود اس خامی کو شام کے خلاف پابندیوں کی قانونی حیثیت کے بارے میں گمراہ کرنے کے لیے استعمال کیا۔
شام پر عائد پابندیوں کا پس منظر
چین کے صدر نے شامی حکومت کے جرائم کو بھی نظر انداز کیا اور یہ وضاحت نہیں کی کہ اسد حکومت کے خلاف پہلے پابندیاں کیوں لگائی گئی تھیں ۔
یہ مارچ2011 کا زمانہ تھا جب شام بھر میں جمہوریت کی حمایت میں مظاہروں کا آغاز ہوا ۔شہریوں نے اسد حکومت کے آمرانہ طرز عمل کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ یہ احتجاج تیزی سے خانہ جنگی کی شکل اختیار کرگیا۔ اس دوران روس اور ایران نے شامی حکومت کی حمایت کی جب کہ امریکہ اور اس کے عالمی اتحادیوں نے حکومت مخالف باغی گروہوں کی حمایت کی۔ امریکہ کے اتحادیوں میں عالمی سطح پر اس کے حلیفوں سمیت سعودی عرب، ترکی، اردن اور متحدہ عرب امارات جیسے علاقائی ممالک بھی شامل تھے ۔
اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں نے اگست 2012 میں شام کی خانہ جنگی میں شریک تمام فریقوں پر جنگی جرائم کے ارتکاب کا الزام لگایا لیکن یہ بھی کہا کہ جنگی جرائم کی’’بڑی تعداد‘‘ اور ’’ مختلف اقسام ‘‘ کا ارتکاب ’’حکومت کی جانب سے ‘‘ ہوا ہے۔
اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں نے کہا کہ ان میں ’’غیر قانونی قتل، تشدد، گرفتاری اور حراست، جنسی زیادتی ، بلا امتیاز حملے، لوٹ مار اور املاک کو تباہ کرنے ‘‘ جیسے جرائم شامل تھے ۔
تفتیش کاروں کا کہنا تھا کہ شام کی سرکاری افواج اور حکومت کی حامی شبیہہ ملیشیا نے مردوں، عورتوں اور بچوں سے زیادتی کی ہے جن پر انسانیت کے خلاف جرائم کے طور پر مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔
کیمیائی حملے
شام کی حکومت پر الزام ہے کہ اس تنازع کے دوران اس نے سینکڑوں بار کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے ۔اور 2013، 2017 اور 2018 میں اس کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کی گئی ہے ۔
جرمنی کے شہر برلن میں قائم گلوبل پبلک پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے ایک مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ شام میں 2019 تک خانہ جنگی کے دوران 98 فیصد کیمیائی حملے اسد کی حکومت نے کیے تھے۔ ان میں شامی شہریوں پر کلورین گیس، سارین اور سلفر مسٹرڈ گیس کا استعمال شامل تھا۔
مارچ 2017 میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک قرارداد کا مسودہ تیار کیا جس میں شام پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر پابندیاں عائد کرنے کی تجویز دی تھی لیکن روس اور چین نے اسے ویٹو کر دیا۔
ایک دہائی کی خانہ جنگی نے جنگ زدہ ملک کو ایک نارکو سٹیٹ یعنی منشیات سے آمدن حاصل کرنے والے ملک میں تبدیل کر دیا۔ امریکی روزنامہ نیویارک ٹائمز کی دسمبر 2021 میں شائع ہونے والی تحقیقات سے معلوم ہوا تھا کہ کہ منشیات کی تجارت اربوں ڈالر میں ہو رہی ہے اور جس میں شامی فوج اور اسد کے رشتہ دار بھی مبینہ طور پر ملوث ہیں۔
امریکہ، یورپی یونین، کینیڈا، آسٹریلیا اور سوئٹزرلینڈ نے اسد حکومت پر شام کی خانہ جنگی کے آغاز کے بعد سے ہی اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، جن کا مقصد حکومت کو شہریوں کے خلاف تشدد کے استعمال سے روکنا ہے۔
امریکہ اور شام
امریکہ نے 2019میں’سیزر سیریا سویلین پروٹیکشن ایکٹ ‘منظور کیا، جس کے تحت ان عالمی اداروں کو نشانہ بنانے والی ثانوی پابندیاں شامل ہیں جو شامی حکومت، اس کی فوج اور انٹیلی جینس ایجنسیوں کے ساتھ کاروبار کرتے ہیں ۔ اس ایکٹ کا نام شام کے ایک گمنام فوجی فوٹوگرافر کے نام پر رکھا گیا تھا جس نے سرکاری جیلوں میں تشدد کا نشانہ بننے والے افراد کی 53 ہزار تصاویر لئنے کے بعد ملک چھوڑ دیا تھا۔
واشنگٹن میں واقع تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن نے 2021 میں لکھا کہ سیزر ایکٹ کے محدود اطلاق کے باوجود شام کی شکست اور اسد کی مکمل فتح کا دعویٰ کرنے کی صلاحیت پر خاصا اثر پڑا ہے۔ امریکی پابندیوں میں انسانی امداد، طبی امداد اور سامان، خوراک اور روزمرہ کی ضروریات شامل نہیں ہیں ۔
شام میں فروری میں 7.8 شدت کے زلزلے کے بعد یہ پابندیاں اس وقت زیربحث آئیں جب شام کی سرحد کے قریب جنوب مشرقی ترکی اور شامی اپوزیشن کا آخری مضبوط گڑھ اس زلزلے سے بری طرح متاثر ہوا اور جس سے جاری جنگ کے اثرات مزید بڑھ گئے۔
امریکہ نے 10 فروری کو شام پر اپنی پابندیوں میں’’زلزلے کے بعد امدادی سرگرمیوں سے متعلق تمام لین دین‘‘ کے لیے 180 دن کی چھوٹ کا اعلان کیا تھا ۔ تاہم اسد حکومت نے اصرار کیا کہ متاثرہ علاقوں میں تمام امداد ان کی حکومت کے ذریعے ہی تقسیم ہو نی چاہیے۔
وی او اے نیوز
فورم