چینی صدر شی جن پنگ نے جمعرات کے روز کہا کہ ایک پر امن، مستحکم، ترقی یافتہ اور خوشحال افغانستان، افغان شہریوں کی تمنا ہے اور یہی علاقائی ممالک اور بین الاقوامی برادری کے مفاد میں بھی ہے۔
صدر شی نے افغانستان کے لیے مضبوط حمایت کا اظہار، چین کے شہر تن سی چومیں ایک علاقائی کانفرنس کے لیے اپنے بیان میں کیا۔ اس کانفرنس میں چین، روس، پاکستان،ایران، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اس کانفرنس کا مرکزی نکتہ افغانستان سے گزشتہ اگست میں امریکی انخلاء کے بعد اس ملک میں قائدانہ کردار کے لیے چین کی خواہش کا اظہار تھا۔
چینی لیڈر نے اگرچہ افغانستان میں طالبان حکمرانوں کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا تذکرہ نہیں کیا، البتہ کہا کہ چین نے ہمیشہ افغانستان کی خودمختاری، آزادی اور علاقائی سلامتی کا احترام کیا ہے اور افغانستان کی پر امن اور مستحکم ترقی کے عزم پر قائم ہے۔
کانفرنس کے اختتام پر ایک مشترکہ اعلامیے میں خواتین کے حقوق، بچوں کی تعلیم اور تمام نسلی گروپوں کے حقوق کے تحفظ کی اہمیت پر زور دیا گیا۔ اعلامیے میں، مبینہ طور پر افغانستان میں موجودہ ابتری کے" ذمے دار ممالک" پر زور دیا گیا کہ وہ اس کی معاشی بحالی کے اپنے وعدوں کو پورا کریں۔
چینی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ تمام فریق اس بات پر متفق ہیں کہ امریکہ اور نیٹوکو افغانستان میں تعمیرِ نو اور ترقی کی ذمے داری پوری سنجیدگی سے قبول کرنی چاہئیے اور افغان عوام کی املاک جتنا جلد ہو انہیں لوٹا دینی چاہئیں، جوبظاہر حوالہ تھا 7ارب ڈالر کے ان افغان اثاثوں کا جو امریکہ نے منجمد کر دیے ہیں۔
صدر بائیڈن کہہ چکے ہیں کہ ان کی حکومت اس میں سے ساڑھے تین ارب ڈالر 9/11 کے متاثرہ خاندانون کو ادا کرے گی جس پر طالبان اور دیگر نے نکتہ چینی بھی کی ہے۔
افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد سے اس ملک کے لیے بین الاقوامی رقوم آنا بند ہو گئیں جبکہ اقوامِ متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ دس لاکھ بچوں کو بھوک سے موت کا خطرہ ہے اور 90%افغان شہری غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
اس کانفرنس کی صدارت چینی وزیرِ خارجہ وانگ یی نے کی۔ انہوں نے اپنے خطاب میں افغانستان کی صورتِ حال سے نمٹنے میں امریکہ کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے کہا،" افغانستان کی ابتری کی "ابتداء کرنے والے ملک" کی حیثیت سے امریکہ کوذمے داری قبول کرتے ہوئے افغانستان پر عائد یک طرفہ پابندیاں ختم کر دینی چاہئیں اور اس کے قومی اثاثے غیر مشروط طور پر واگزار کر دینے چاہئیں۔"
ایک ایسے وقت میں جب بڑے پیمانے پر طالبان کی جانب سے ناروا سلوک اور ملکی انتظام میں ناکامی کی خبریں ہیں اور طالبان نے امریکہ اور نیٹو ممالک کے ان مطالبات میں پیش رفت نہیں دکھائی جن میں خواتین کی تعلیم اور ان کے حقوق کی پاسداری خاص طور پر شامل ہے، چین طالبان سے بات چیت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ کیا چین طالبان حکومت کو تسلیم کر لے گا؟ اس سوال کے جواب میں ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہو گا،کیونکہ چین کے بارے میں یہ اندازے بھی غلط ثابت ہوئے ہیں کہ وہ یو کرین کی جنگ میں فوری روس کا ساتھ دے گا۔
واشنگٹن ڈی سی میں نیو لائنز انسٹی ٹیوٹ فار سٹریٹیجی اینڈ پالیسی میں ڈائریکٹر انالیٹیکل ڈیویلپمنٹ، کامران بخاری نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چین امریکہ کی مخالفت مول لے کر طالبان کو تسلیم نہیں کرے گا جبکہ طالبان پر ابھی اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی پابندیاں بھی برقرار ہیں۔
چینی وزیرِ خارجہ وانگ نے بھی اپنے خطاب میں کہا کہ استحکام، طرزِ زندگی اور انسانی حقوق کے تحفظ میں بہتری کے کچھ "جزوی نتائج" سامنے آئے ہیں مگر پائیدار امن، مستحکم ترقی اور اپنے خارجہ تعلقات میں پیش رفت کے لیے افغانستان کو ابھی بہت سفر طے کرنا ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق نہ تو صدر شی اور نہ ہی وزیرِ خارجہ وانگ نے افغانستان کے لیے چینی امداد کی تفصیلات کا ذکر کیا۔ تاہم اس سے پہلے چین افغانستان کے لیے ہنگامی امداد بھجوا چکا ہے اور اب وہاں تانبے کی کان کنی میں مدد دینے کی کوشش کر رہا ہے۔
کامران بخاری کے نزدیک عالمی برادری کے لیے یہ الجھن معمہ بنی ہوئی ہے کہ وہ طالبان کوتو تسلیم نہیں کرنا چاہتے مگر افغان عوام کی ضروریات پوری کرنا چاہتے ہیں۔ اور ان تک امداد پہنچانے کا راستہ طالبان حکومت سے ہو کر جاتا ہے۔ اس لیے یہ یقین دہانی حاصل کرنے کے لیے کہ طالبان امدادی فنڈ عوام کے بجائے اپنی حکومت کو مستحکم کرنے پر نہ صرف کر دیں طالبان سے بات چیت ضروری ہے۔
چین اس پالیسی پر کاربند ہے جسے وہ دیگر ممالک کے اندرونی معاملات میں، جن میں انسانی ہمدردی کے معاملات، جن پر اقوامِ متحدہ کی تعزیریں نہ ہوں، بھی شامل ہیں، مداخلت نہ کر نے کی سخت پالیسی سے تعبیر کرتا ہے۔
تاہم حقیقت یہ بھی ہے کہ خود چین میں انسانی حقوق خاص طور پر ایغور مسلمانون کی صورتِ حال پر سوال اٹھائے جاتے ہیں لیکن وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے، کیٹو انسٹی ٹیوٹ میں ڈیفنس اینڈ فارین پالیسی ڈیپارٹمنٹ میں ریسرچ فیلو سحر خان نے کہا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں چین کے لیے ’’زیادہ اہم مسئلہ نہیں۔‘‘
لیکن سوال یہ بھی ہے کہ اگر ایسے ہی چلتا رہا اور دنیا کے ملک طالبان سے بات بھی کرتے رہے تو کیا انہیں تسلیم کرنے کی ضرورت باقی رہ جائے گی؟
اس سوال کے جواب میں سحر خان کہتی ہیں کہ طالبان تو چاہتے ہیں کہ انہیں تسلیم کیا جائے مگر ان کی جانب سے کسی تبدیلی کے بغیر انہیں تسلیم کرنا خرابی کی بات ہو گی۔
مگر وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ افغانستان کے حالات سے باخبر رہنے کے لیے طالبان سے بات چیت بہت ضروری ہے کیونکہ افغانستان میں اور کوئی حکومت نہیں ہے تو یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے نزدیک بھی طالبان سے بات کرنا ضروری ہے۔
اسی موقعے پرچینی وزیرِ خارجہ وانگ نے ایک اور ملاقات میں بھی شرکت کی جس میں افغانستان کے لیے چین، امریکہ اور روس کے خصوصی نمائندے شریک ہوئے ۔اس گروپ کو "ایکسٹینڈڈ ٹروئیکا" یا " ٹروئیکا پلس"کا نام دیا گیا ہے۔
اس ملاقات میں بھی وانگ نے زور دیا کہ امریکہ کو افغانستان کے خلاف، بقول ان کے، "بلاجواز" تعزیریں ختم کرنے اور منجمد اثاثے واگرار کرنے کے لیے عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔
اس ملاقات کے بارے میں اپنے ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے طالبان وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ یہ ملاقات افغانستان کے ہمسایہ ممالک کی چین میں ہونے والی کانفرنس کے لائحہ عمل کے مطابق تھی۔
افغان وزارتِ خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے کہا ہے کہ طالبان وفد کے ایک رکن مولوی شہاب الدین دلاور نے ٹروئیکا پلس کے شرکاء کو یقین دلایا کہ افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اسی دوران بلخی نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ طالبان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے روسی وزیرِ خارجہ لاوروف سے چین میں ملاقات کی۔ خبر رساں ادارے طاس نے بھی طالبان حکومت کے پہلے سفارتکار کی اس ملاقات کی تصدیق کی ہے۔
ایجنسی نےروسی وزیرِ خارجہ کا بیان نقل کیا جس میں انہوں نے کہا،" میں یہ باور کروانا چاہتا ہوں کہ گزشتہ ماہ نئے حکام کی جانب سےماسکو بھیجے گئے پہلے افغان سفارتکار کوہماری وزارت نے قبول کیا ہے۔"
چین میں منعقدہ وزراء خارجہ کی تیسری کانفرنس کے دوران تمام فریقوں کے نمائندوں نے طالبان حکومت کے قائم مقام وزیرِ خارجہ امیر خان متقی سے ملاقات کی۔قطر اور انڈونیشیا کے وزراء خارجہ نے مہمان کی حیثیت سے اس کانفرنس میں شرکت کی۔
اگرچہ چین نے ابھی طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا مگر اس بنیاد پرست اسلامی گروپ سے روابط بڑھانے میں بہت تیزی دکھائی ہے۔
کیٹو انسٹی ٹیوٹ کی سحر خان کا کہنا ہے کہ یہ کوئی خارجہ پالیسی وضح کرنے کی جانب پہلا قدم ہو سکتا ہے۔
(خبر کا کچھ مواد ایسو سی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے)