افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کو چھہ ماہ ہو چکے ہیں۔ مگر ابھی تک نہ تو دنیا کے کسی ایک ملک نے ان کی حکومت کو تسلیم کیا ہے،نہ وہاں کے معاشی اور دوسرے مسائل کے حل کی جانب کوئی واضح پیش رفت نظر آتی ہے۔ دنیا کی کوشش ہے کہ طالبان سے قطع نظر افغان عوام کی انسانی بنیادوں پر مدد کی جائے اور جس انسانی المیے کے وہاں واقع ہونے کے خدشات ہیں انہیں روکا جائے۔ امریکہ نے اس مقصد کےلیے متعدد مالیاتی پابندیاں اٹھالی ہیں۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس وقت بھی جبکہ طالبان کے کنٹرول کو چھہ ماہ ہو چکے ہیں افغان عوام کو وہ ریلیف نہیں مل سکا جس کی توقع کی جارہی تھی۔
سفیر ولیم برائینٹ مائیلم'ووڈ رو ولسن انٹرنیشنل سینٹر' سے وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں ان چھہ ماہ کے دوران امریکہ نہیں بلکہ دنیا کے ممالک انسانی بنیادوں پر افغانوں کی مدد کی کوششوں کےساتھ یہ بھی دیکھتے رہے ہیں کہ طالبان دنیا سےکیے گئے اپنے وعدوں کو کس حد تک پورا کرتے ہیں۔
بقول ان کے، عجلت میں افغانستان سے امریکہ کے نکلنے کے سبب وہاں جو صورت حال بنی اس کے پیش نظر اس وقت امریکہ کے لیے چیلنج یہ ہے کہ ایسے میں جبکہ اس کو یو کرین اور ایشیا بحر ا لکاہل کے امور پر زیادہ توجہ دینی پڑ رہی ہے، تو وہ کس طرح انسانی بنیادوں پر افغان عوام کی اس انداز میں مدد کرسکتا ہے کہ مدد بھی ہو جائے اور رقوم طالبان کے ہاتھوں میں بھی نہ پہنچ پائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت امریکہ کےلیے بہتر حکمت عملی یہ ہوگی کہ وہ حالات پر نظر رکھے اور اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر طالبان پر دباؤ برقرار رکھے کہ وہ حقوق انسانی، اقلیتوں کے حقوق اور نمائندہ حکومت کے قیام کےلیے اپنے وعدوں کو پورا کریں اور دوسری طرف افغان عوام کی انسانی بنیادوں پر مدد اور اعانت کا سلسلہ جاری رکھے۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت افغانستان کی صورت حال انتہائی پیچیدہ ہےاور بہت سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر زبیر اقبال کا تعلق مڈ ایسٹ انسٹیٹیوٹ سے ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس خطے میں اب امریکہ کے مفادات زیادہ نہیں رہے۔ اسی لیے وہ اس پر زیادہ توجہ دینے کےلیے تیار نہیں ہے اور اسی لیے وہاں سے نکلا بھی ہے کیونکہ دوسرے خطوں خاص طورپرایشیا بحر الکاہل کے خطے میں جہاں مزید وسائل کی ضرورت تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ جو چھہ ماہ افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے گزرے ہیں یہ بہت مختصر وقت ہے۔ اور اس وقت جو صورت حال ہے وہ امریکہ کی خارجہ پالیسی کے لیے کوئی بڑا چیلنج نہیں ہے۔ در حقیقت امریکہ کی خارجہ پالیسی کے لیے اس وقت بڑے چیلنجز پیدا ہوں گے جب دوسرے ممالک، خاص طور سے، روس اور چیں افغانستان میں اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کےلیے تگ و دو کریں تو پھر امریکہ کو بھی اپنی اس پالیسی میں، جو بقول ان کے، کسی حد تک لاتعلق رہنے کی ہے، تبدیلی لانا پڑے گی۔
چین کی جانب سے، ہر چند کہ اس نے بھی طالبان کی حکومت تسلیم نہیں کی، ایسے اشارات ملے ہیں کہ افغانستان چاہے تو اس کے 'بیلٹ اینڈ روڈ' منصوبے میں شامل ہو سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوا اور ایران بھی اس میں شامل ہو جاتا ہے اور افغانستان تجارتی راہداری کا ایک مرکز بن جاتا ہے تو پھر امریکہ کو سوچنا ہو گا کہ اس کے اسٹریٹیجک مفادات پر کیا اثر پڑےگا۔ خاص طور سے مشرقی یورپ اور ایشیا بحر الکاہل کے خطے میں اس کے کیا اثرات پڑیں گے۔ اسی اعتبار سے اسے اپنی پالیسی تبدیل کرنی ہو گی۔
افغانستان کے بارے میں امریکہ کی جاری پالیسی کو دنیا کس نظر سے دیکھتی ہے۔ ڈاکٹر زبیر اقبال کا کہناہے کہ ہر ملک اپنے مفادات کے نقطہ نظر سے دیکھتا ہے۔ لیکن چند ممالک کے علاوہ جن کے قومی اور ملکی مفادات افغانستان سے وابستہ ہیں، بیشتر ممالک کے خیال میں افغانستان اور طالبان اب زیادہ اہم نہیں رہے۔ سوائے اس کے کہ وہ افغان عوام کے مصائب کو دور کرنے اور وہاں کسی انسانی المیے کو واقع ہو نے سے روکنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ اور ویسے بھی اس وقت مغرب، خاص طور پر امریکہ کے لیے مشرقی یورپ اور ایشیا بحر الکاہل کے معاملات زیادہ اہم ہیں۔
امریکہ میں منجمد کی گئی افغان رقوم کو دو حصوں میں تقسیم کرنے اور ایک حصہ نائن الیون کے متاثرین کے لیے مختص کرنےکے امریکہ کے فیصلے پر افغانوں کا احتجاج جاری ہے اور طالبان نے دھمکی دی ہے کہ اگر امریکہ نے ساری رقم طالبان کو نہ دی تو وہ امریکہ کے بارے میں اپنی پالیسی پر نظر ثانی پر مجبور ہو جائیں گے۔وہ کیا کرسکتے ہیں اس بارے میں ڈاکٹر زبیر اقبال کا کہنا تھا کہ جو رقم افغانستان کی تھی اسے اس طرح تقسیم کرنا غیر مناسب ہے۔ بقول ان کے، اس کے گلوبل فنانشیل سسٹم پر اثرات پڑیں گے اور دوسری طاقتیں بھی اس مثال کو اپنانے کی کوشش کریں گی۔ رہ گئی بات طالبان کی جانب سے پالیسی پر نظر ثانی کی، تو ان کے پاس کوئی آپشنز نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اگر انہوں نے ماضی کی کوئی غلطی دہرانے کی کوشش کی تو اس کا زیادہ اثر خود ان پر ہی پڑے گا۔ اس لیے، وہ یقینناً ایسی کوئی غلطی نہیں کریں گے۔