چین نے کرونا وائرس کی ابتدا سے متعلق الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اپنے ردِ عمل میں کہا ہے کہ امریکہ اس معاملے پر سیاست کر رہا ہے۔
اس سے قبل امریکہ نے کہا تھا کہ وہ کرونا وائرس کی شروعات سے متعلق اپنی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی باریک بینی سے کی جانے والی تحقیق کے نتائج عوام کے سامنے پیش کرے گا۔
چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بن نے منگل کے روز کہا کہ امریکہ کی طرف سے تواتر کے ساتھ اس طرح کے سوالات اٹھائے جانے کا مقصد صرف اپنے ملک میں وبا پر قابو پانے میں ناکامی سے توجہ ہٹانا اور چین پر دباؤ ڈالنے کے لیے اس پر الزام لگانا ہے۔
وانگ کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر سیاست سے امریکہ اور اس کے عوام کو نقصان پہنچے گا اور وبا کے ماخذ کو تلاش کرنے کے لیے بین الاقوامی تعاون کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی ہوں گی، جس کا نتیجہ صرف ناکامی کی صورت میں نکلے گا۔
گزشتہ ہفتے ریاست اوہائیو کے شہر کلیولینڈ کے دورے پر جاتے ہوئے صدر بائیڈن نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ وہ 90 روزہ تحقیقات کے نتائج لوگوں کے سامنے لائیں گے۔
صدر نے ان بڑھتی ہوئی قیاس آرائیوں کے پیش نظر کہ کووڈ-19 ممکنہ طور پر چین کی ایک لیبارٹری سے لیک ہوا تھا، گزشتہ بدھ کو ایک نئی تحقیق کا حکم دیا تھا۔
اس سال مارچ میں عالمی ادارہ صحت اور چینی ماہرین نے اپنی پہلی رپورٹ جاری کی تھی جس میں وائرس کی ابتدا کے بارے میں چار نظریات پیش کیے گئے تھے۔ رپورٹ میں کہا تھا کہ زیادہ امکان یہ ہے کہ وائرس چمگادڑوں سے کسی اور جانور کے توسط سے انسانوں میں منتقل ہوا۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ یہ سراسر بعید از امکان ہے کہ وائرس لیبارٹری سے نکلا۔
صدر بائیڈن نے پچھلے ہفتے امریکی انٹیلی جنس کے عہدے داروں سے کہا تھا کہ وہ کووڈ-19 کے ماخذ کا پتا لگانے کے لیے اپنی کوششوں میں اضافہ کر دیں، جس کا دائرہ ممکنہ طور پر چین کی لیباٹری تک بھی بڑھایا جا سکتا ہے۔
ووہان کے دورے کے بعد عالمی ادارہ صحت کی تحقیق کو جنیوا میں امریکی مشن نے ناکافی قرار دیتے ہوئے ماہرین کی نگرانی میں بروقت، شفاف اور شواہد پر مبنی ایک اور تحقیق کرانے کا مطالبہ کیا تھا۔
کرونا وائرس کیسے اور کہاں سے شروع ہوا؟ ابھی تک اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ماہرین کے ایک گروپ کو شبہ ہے کہ کووڈ-19 چین کے شہر ووہان میں قائم وائرس کی تحقیق سے متعلق لیبارٹری سے نکلا۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ آیا یہ اخراج کسی حادثے کا نتیجہ تھا یا اس کا سبب غیر ذمہ داری تھا یا ایسا جان بوجھ کر کیا گیا۔
چین ان الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے اسے بیجنگ کے خلاف بدنیتی پر مبنی پراپیگنڈے کا نام دیتا ہے۔
گزشتہ ہفتے وال سٹریٹ جرنل میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ووہان کی وائرولوجی لیبارٹری کے کچھ افراد وبا پھوٹ پڑنے سے ایک مہینہ پہلے بیمار ہو گئے تھے۔ رپورٹ میں اس شبے کا اظہار کیا گیا ہے کہ انہیں غالباً یہی وائرس منتقل ہوا تھا۔
اس سے قبل مغربی میڈیا کی ایک اور رپورٹ میں وائرس کے پھیلاؤ کی ذمہ داری کرپشن اور بدعنوانی پر ڈالتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ووہان کی وائرولوجی لیب میں وائرس سے متعلق تجربات میں استعمال ہونے والے جانوروں کو بعد ازاں تلف کر دیا جاتا ہے تاکہ وائرس لیب سے باہر نہ نکلے۔ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ایسے شواہد موجود ہیں کہ بعض افراد انہیں ہلاک کرنے کی بجائے چوری چھپے زندہ جانوروں کی خرید و فروخت کرنے والی مارکیٹ میں بیچ دیتے ہیں۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ ووہان میں کرونا وائرس کی شروعات زندہ جانوروں کی ایک مارکیٹ سے ہوئی۔
چین میں تقریباً ہر طرح کے جانور انسانی خوراک بن جاتے ہیں، اس لیے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا گیا کہ وائرس مارکیٹ میں لائے جانے والے کسی جانور سے انسانوں میں منتقل ہوا۔
چین نے سرکاری طور پر 2019 میں عالمی ادارہ صحت کو وبا پھوٹنے کی اطلاع دی تھی۔ جس کے بعد ماہرین پر مشتمل عالمی ادارے کی ایک ٹیم نے ووہان لیب کے تفصیلی معائنے کے بعد ان شہبات کو خارج از امکان قرار دیا تھا کہ وائرس لیبارٹری سے لیک ہوا ہے۔ تاہم کئی ماہرین نے عالمی ادارہ صحت کی اس رپورٹ پر سوالات اٹھائے تھے۔