چین کی پارلیمان نے مشتبہ ملزمان کو تفتیش کی غرض سے خفیہ مقامات پر قید کرنے کے عمل کو جائز قرار دینے سے متعلق متنازعہ قانون سازی روک دی ہے۔
چینی پارلیمان کا یہ اقدام بظاہر پولیس کے ہاتھوں جبری گمشدگی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر عوامی احتجاج کا ردِ عمل ہے۔
اطلاعات کے مطابق بیجنگ میں جاری 'نیشنل پیپلز کانگریس ' کے اجلاس میں ضابطہ فوجداری کے مجوزہ قانون کو جو نیا مسودہ پیش کیا گیا ہے اس میں سے وہ شق نکال دی گئی ہے جس میں پولیس کو مشتبہ افراد "غائب" کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔
حذف کی گئی شق میں پولیس کو ایسے مشتبہ ملزمان کو ان کے اہلِ خانہ کے علم میں لائے بغیر خفیہ طور پر قید میں رکھنے کی اجازت دی گئی تھی جنہیں ملکی سلامتی کے لیے خطرہ تصور کیا جاتا ہو۔
مجوزہ قانون کا نیا مسودہ پیش کرتے ہوئے کانگریس میں قانون سازی کے وائس چیئرمین وانگ زائو گو نے موقف اختیار کیا کہ چین میں نافذ ضابطہ فوجداری یوں تو "مناسب" ہے لیکن ان کے بقول مشتبہ ملزمان کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے مجوزہ نظر ثانی شدہ قانون ضروری تھا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے مجوزہ قانون کے مسودے سے متنازع شق حذف کیے جانے کے عمل کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے اسے ملک میں انسانی حقوق کی صورتِ حال میں بہتری کی جانب پہلا قدم قرار دیا ہے۔
لیکن ان تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ مجوزہ قانون میں تبدیلی کے باوجود قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں مشتبہ ملزمان کی جبری گمشدگیوں کا مسئلہ مکمل طور پر حل نہیں ہوگا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ قانون کے نظر ثانی شدہ مسودے میں بھی پولیس کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ "مشتبہ دہشت گردوں" کو ان کے اہلِ خانہ کے علم میں لائے بغیر روایتی جیلوں میں قید رکھ سکتی ہے۔