تبت، منگولیا اور سنکیانگ میں نسلی اقلیتوں کو ضم کرنے کے تجربات کے بعد، چینی حکومت اب تمام اقلیتی آبادیوں کی اپنی مادری زبانوں میں اسکول کی تعلیم کو ختم کرنے کے لیے اپنی ثقافتی یکسانیت کی پالیسی کو آگے بڑھا رہی ہے۔
پچھلے مہینے کے آخر میں، بیجنگ نے بچوں کی تربیت سے متعلق ایک تازہ ترین بلیو پرنٹ جاری کیا جس کے تحت نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کے لیے ان کی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے کے حق کو ختم کر دیا گیا ہے۔
ستائیس ستمبر کو جاری ہونے والے نئے چائنا نیشنل پروگرام برائے چائلڈ ڈویلپمنٹ 2021-2030 میں نسلی اقلیتوں کے بچوں کے لیے ان کی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے کے تحفظ کی شق کو حذف کر دیا گیا ہے۔ اس کے بجائے یہ کہا گیا ہے کہ نسلی اقلیتوں کے بچوں کو اسکول میں اپنی مادری زبان کے بجائے چینی زبان میں پڑھنا اور لکھنا سکھایا جائے گا۔
بعض ماہرین کے مطابق کسی زبان کے استعمال کو ختم کرنا یا اس میں کمی کرنا جبری طور پر ضم کرنے کے وسیع پیمانے پر استعمال کیے جانے والے حربوں میں سے ایک ہے۔
چین کی مقامی زبانوں میں تعلیم کی پالیسی میں تازہ ترین تبدیلی یونیسکو کی پالیسی کے خلاف ہے جس نے 1953 میں مادری زبان میں پرائمری تعلیم کی حوصلہ افزائی کی تھی۔
وائس آف امریکہ کی مینڈرین سروس نے نئی پالیسی پر تبصرہ کے لیے واشنگٹن میں چینی سفارت خانے سے رابطہ کیا لیکن جواب نہیں ملا۔
تائیوان کی نیشنل یانگ منگ چیاؤ ٹونگ یونیورسٹی کے شعبہ سماجی علوم کی پروفیسر پین می لین نے وی او اے کی مینڈرین سروس کو بتایا کہ چین کی تازہ ترین پالیسیاں آہستہ آہستہ ان اقلیتی گروپس کی منفرد ثفافتوں کو ختم کر دیں گی جنہیں ہدف بنایا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چین میں درجنوں نسلی گروپس ہیں لیکن کل آبادی کے 90 فی صد سے زیادہ افراد کا تعلق ہان نسلی گروہ سے ہے۔ جس ثقافت کو چین کی ثقافت کا نام دیا جاتا ہے وہ اصل میں ہان گروپ کی ثقافت ہے۔
جاپان کی شیزوکا یونی ورسٹی میں ثقافتی امور اور بشریاتی علوم کے ایک ماہر پروفیسر یانگ ہائینگ کا کہنا ہے کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی خاموشی سے نسلی اقلیتوں کو ضم کرنے کے اپنی پالیسیوں میں توسیع کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بیجنگ نے 80 کی دہائی میں اپنی ثقافتی خود مختاری کو فروغ دینا شروع کیا اور اقلیتوں اور ہان چینی باشندوں کے درمیان سماجی و اقتصادی عدم مساوات کو کم کرنے کے لیے کام کیا۔
کرونا وائرس کے پھیلاؤ نے اقلیتی گروہوں کی ثقافتی شناخت مٹانے میں چینی حکومت کی مزید مدد کی کیوں کہ وبائی پابندیوں نے آمدو رفت کو مزید محدود کر دیا ہے۔
پروفیسر یانگ نے بتایا کہ ستمبر کے اوائل تک، چینی حکام وسطی صوبے میں کنڈرگارٹن اور ابتدائی اسکولوں کے مادری زبان میں تعلیم سے متعلق قواعد تبدیل کر چکے تھے۔ یہ وہ صوبہ ہے جہاں کئی نسلی گروہ آباد ہیں۔
یانگ کے مطابق، مقامی قواعد و ضوابط پر نظر ثانی کی گئی ہے تاکہ نسلی اقلیتوں کے اسکولوں میں ان کے بچے اپنی مادری زبان کے بجائے مینڈرین میں تعلیم حاصل کر سکیں جو ملک کی سرکاری زبان ہے۔
چین میں لگ بھگ 56 نسلی اقلیتی گروپس ہیں جن میں سے تبتی، منگولین اور ایغور نسل کے افراد بیجنگ کی جابرانہ پالیسیوں کے خلاف سب سے زیادہ آواز اٹھاتے ہیں۔
جولائی میں وال اسٹریٹ جرنل نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ بیجنگ نے اپنے ملک میں آباد 63 لاکھ تبتی باشندوں کی نگرانی اور پابندیوں میں اضافہ کر دیا ہے اور ان کے اسکولوں میں سے روایتی فن پارے ہٹا کر ان کی جگہ شی جن پنگ کی تصویریں لگا دی گئی ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق زبان کو تباہ کرنے کے ارادے سے کیا جانے والا کوئی بھی دانستہ عمل لسانی نسل کشی کے مترادف ہے۔
تائیوان میں جلا وطنی کی زندگی گزارنے والے جلا وطن تبتی حکومت کے نمائندے کیلسانگ گائلسن باوا نے وائس آف امریکہ کی مینڈرین سروس کو بتایا کہ وہ تبتی زبان کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے 70 سے 80 فی صد تک تبتی باشندے روانی سے تبتی زبان بول اور لکھ سکتے تھے۔ لیکن اب ہر 10 میں 9 نوجوان تبتی اپنی زبان لکھنا نہیں جانتے۔
یہی عمل اب سنکیانگ میں دہرایا جا رہا ہے جو مسلم نسلی اقلیت ایغوروں کا وطن ہے۔ جرمنی میں قائم ورلڈ ایغور کانگریس میں چینی امور کے ڈائریکٹر الشاط حسن کوکبور کہتے ہیں کہ اب بڑے شہروں میں چند ہی نوجوان ایسے رہ گئے ہیں جو ایغور زبان بول سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سنکیانگ میں کئی برسوں سے جاری بیجنگ کی پالیسی کے باعث مقامی لوگوں کے لیے اپنی زبان، ثقافت اور شناخت کو محفوظ رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔
ٹوکیو میں قائم جنوبی منگولیا کانگریس کے چیئرمین ٹمٹسولٹو شوٹسوڈ کا کہنا ہے بیجنگ نے اپنی زبان اور ثقافت کے تحفظ کے لیے مظاہرے کرنے اور آواز اٹھانے کے جرم میں پانچ ہزار سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا ہے۔
شیزوکا یونیورسٹی کے ماہر بشریات یانگ نے پیش گوئی کی ہے کہ بیجنگ کا اگلا اقدام آئین کو تبدیل کرنا ہو گا۔
ان کے بقول بیجنگ اب مقامی قواعد و ضوابط میں ترمیم کر رہا ہے اور اگلا مرحلہ آئین کو تبدیل کرنا ہے تاکہ تمام نسلی گروپس اپنی زبانوں اور ثقافت کے تحفظ کے حق سے محروم ہو جائیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ امکان بہت زیادہ ہے کہ تمام خود مختار علاقے بھی آخر کار صوبوں میں تبدیل ہو جائیں گے۔