بدھ کو تائیوان کی وزارت دفاع نے چینی افواج کو متنبہ کیا کہ وہ جزیرے کے انتہائی قریب نہ آئیں اور اگر ایسا ہوا تو تائیوان سخت جوابی اقدام کرے گا۔ چین تائیوان کی فضائی حدود کے قریب پروازیں کرنے کا دفاع یہ کہہ کر کرتا آیا ہے کہ اس کا مقصد امن و سلامتی کا تحفظ ہے۔
گزشتہ 40 سال میں پہلی بار چین اور تائیوان کے درمیان فوجی کشیدگی نے اس قدر شدت اختیار کی ہے۔ پچھلے ہفتے تائیوان کے وزیر دفاع نے کہا تھا کہ اگر حالات یہی رہے تو 2025 تک چین تائیوان پر پورا دھاوا بول سکتا ہے۔
انہوں نے یہ بات اس وقت کہی جب چین کے جنگی طیاروں نے مسلسل چار روز تک تائیوان کی فضائی حدود کے قریب آ کر پروازیں کیں۔ تائیوان نے اسے چین کی جانب سے ڈرانے دھمکانے کی کارروائی قرار دیا۔
پارلیمنٹ کے سامنے رپورٹ پیش کرتے ہوئے وزارت دفاع نے کہا کہ تائیوان کی فورسز حسب موقع دفاعی اقدامات کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔ رپورٹ میں مزید تفصیل نہیں بیان کی گئی۔
وزارت نے سرحد کے قریب چین کی بڑھتی ہوئی عسکری سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ آبنائے تائیوان کی ناکہ بندی کرنے کی چینی صلاحیت اب پایہ تکمیل کو پہنچ چکی ہے اور اس سے ہماری دفاعی سرگرمیوں کے لیے خطرات اور چیلنج پیدا گئے ہیں۔
دوسری طرف چین تائیوان اور اس کے حلیف امریکہ پر کشیدگی بڑھانے کا الزام لگاتا ہے۔
چین کے تائیوان امور کے دفتر کے ترجمان نے ایک بار پھر تائیوان کی حکمران ڈیموکریٹک پروگریسیو پارٹی پر الزام لگایا ہے۔ انہوں نے چین کی سرگرمیوں کو درست اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ تائیوان کی حکمران جماعت، بقول اس کے، خوامخواہ بات کا بتنگڑ بنا رہی ہے۔
بقول اس کے، یہ غلط راستے پر جا رہی ہے اور اس سے تائیوان کو مزید خطرناک صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ترجمان کے اس تبصرے کے باوجود چین کے صدر شی جن پنگ اور تائیوان کی صدر سائی اینگ وین نے اختتام ہفتہ کسی قدر مصالحانہ باتیں کی ہیں۔ صدر شی نے یہ تو کہا کہ تائیوان کو چین اپنے تحت لائے گا مگر ساتھ یہ بھی کہا کہ چین اس مقصد کے حصول کے لیے زبردستی نہیں کرے گا۔
دوسری طرف سائی نے چین کے ساتھ امن مذاکرات شروع کرنے کی خواہش کا اعادہ کیا۔ اپنی جماعت کے معمول کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بدھ کو انہوں نے کہا کہ حکومت چین کے فوجی خطرے سے لاعلم نہیں ہے، لیکن وہ جارحانہ اقدام سے گریز کرے گی۔
(اس خبر کا مواد خبر رساں ایجنسی رائیٹرز سے لیا گیا ہے)