تبت کی جلاوطن حکومت کے راہنما نے چین کے جنوب مغربی صوبے شیچوان میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان دو روزہ جھڑپوں میں ہلاکتوں کی خبروں کے بعد اپیل کی ہے کہ دنیا مزید خون خرابہ رکوانے کے لیے مداخلت کرے۔
بدھ کے روز جاری ہونے والے بیان میں جلاوطن تبتی وزیر اعظم لوبسانگ سانگے نے کہا ہے کہ بین الاقوامی برداری کو اس معاملے میں اخلاقی معیار کا اظہار کرتے ہوئے تشدد کے ان واقعات پر خاموش نہیں رہنا چاہیے۔
لندن میں قائم تنظیم’ فری تبت‘ نے کہا ہے کہ منگل کے روز سیدا کاؤنٹی میں ہونے والے مظاہرے کے دوران کم ازکم دو افراد کو گولی مارکرہلاک کردیا گیا ، جب کہ کئی ایک زخمی بھی ہوئے۔
تنظیم کا کہناہے کہ پیر کے روز سیکیورٹی فورسز نے لوہو قصبے کے قریب مذہبی روایات کو دبانے کی کوششوں کے خلاف ہونے والے مظاہرے میں دو تبتی باشندوں کو ہلاک اور 36 کو زخمی کردیاتھا۔
چین کے سرکاری خبررساں ادارے نے بدھ کے روز جھڑپوں کی تصدیق کی ، لیکن یہ بھی کہا کہ پولیس کو اس وقت گولیاں چلانے پر مجبور ہونا پڑا جب لوگوں کے ہجوم نے ان پر ہتھیاروں، چاقوؤں ، بوتلوں اور پتھروں سے حملہ کیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ منگل کے روز جھڑپوں میں ایک شخص ہلاک اور ایک زخمی ہوا۔
بدھ کے روز ہزاروں تبتی باشندوں اور بودھ بھگشوؤں نے شمالی بھارتی قصبے دھرم شالا میں ایک عوامی دعائیہ تقریب میں شرکت کی اور ہلاکتو ں پر چین کی مذمت کی۔