تبت کے ایک سر گرم گروپ نے وہ فوٹو جاری کیے ہیں جن کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ وہ حالیہ مظاہروں کے مقامات کے ہیں جن میں چین کی بلوہ پولیس کو زخمی مظاہرین کو مارتے پیٹتے اور دھکے دیتے ہوئے دکھایا ہے ۔ گروپ کا کہنا ہے کہ ان تصویروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین نہتے اور پر امن مظاہرین کے ساتھ وحشیانہ سلوک کر رہا ہے ۔
اسٹوڈنٹس فار فری تبت نامی تنظیم کی طرف سے جاری ہونے والی تصویروں میں دکھا یا ہے کہ پولیس نے مظاہرین کو اپنے سخت گھیرے میں لیا ہوا ہے، اور انہیں گھسیٹ رہی ہے۔ ایک شخص کے سر سے خون بہتا دکھائی دے رہا وے۔ تنظیم نے کہا ہے کہ یہ تصویریں چین کے صوبے سچوان کے علاقے سرتا کی ہیں۔
دور جی تستن شمالی بھارت کے شہر دھرم شالہ میں قائم اس تنظیم کے بھارتی ڈائریکٹر ہیں ۔ ان کا کہناہے کہ ان تصاویر سےظاہر ہوتا ہے کہ چین نے حالیہ ہفتوںمیں مظاہروں کے بارےمیں جھوٹ سے کام لیا ہے۔
ان کا کہناتھا کہ چینی حکومت کہتی ہے کہ ان مظاہرین کو سیلف ڈیفنس کے تحت گولی ماری گئی تھی لیکن تصویر میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ مظاہرین واضح طو ر پر غیر مسلح ہیں ، ان کا احتجاج پرامن ہے، اور پھر پولیس وحشیانہ پکڑ دھکڑ کرتی ہے اور تبتیوں کو ہلاک کرتی ہے ۔
تبت کے جلا وطن وزیر اعظم بوبسانگ سانگے سےجمعرات کےر وزیہ بیان منسوب کیا گیا کہ انہیں چینی فوجی اہل کاروں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر تشویش ہے ۔ پیرا ملٹری فورسز کے یہ اہل کار خود کار مشین گنوں سے بھرے ٹرکوں کے ساتھ تبتی علاقوں میں داخل ہو رہے ہیں۔
جلاوطن تبتیوں کا کہناہے کہ حالیہ ہفتوںمیں سات مظاہرین اس وقت ہلاک ہوئے جب پولیس نے تین مختلف واقعات کے دوران نہتے مظاہرین پر فائرنگ کی ۔
چین کے سینیئر عہدے داروں کا کہنا ہے کہ ان مظاہروں کی منصوبہ بندی تربیت یافتہ علیحدگی پسندوں نے بہت پہلے سے کررکھی تھی۔
تنظیم اسٹوڈنٹس فار فری تبت کے عہدے دار ڈورجی کا کہنا ہے کہ اس ہفتے گروپ نے جو تصاویر جاری کیں انہیں حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔
تبت کے جلاوطن وزیر اعظم نے چین کے کنٹرول کے تبت میں رونما ہونے والے واقعات پر احتجاج کے لیے اگلےہفتے ایک عالمی شب بیداری کی اپیل کی ہے اور اقوام متحدہ سے کہا ہے کہ وہ خطےمیں حقائق کا جائزہ لینے کے ایک ٹیم بھیجے۔