ماہرینِ خوراک و زراعت کو یہ تشویش لاحق ہے کہ دنیا کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو خوراک کی مسلسل فراہمی کس طرح یقینی بنائی جائے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا کی آبادی کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے 2025ء تک خوراک کی پیدوار میں کم از کم 60 فی صد تک اضافہ کرنا ہوگا۔
یہ صورتِ حال اور اندازے آبادی کے اعتبار سے دنیا کے سب سے بڑا ملک چین کے لیے خاص طور پر پریشانی کا باعث ہیں جو اپنی غذائی ضروریات کی ایک بڑی مقدار دوسرے ملکوں سے درآمد کرتا ہے۔
اپنی آبادی کی مستقبل کی غذائی ضروریات پوری کرنے کی غرض سے چین نے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں 'فوڈ پروڈکشن' کے شعبوں میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔
اب ان ممالک کی فہرست میں یوکرائن بھی شامل ہوگیا ہے جو ایک صدی پیشتر تک گندم اور مکئی کی شاندار پیداوار کے باعث یورپ کی 'بریڈ باسکٹ' کے طور پر مشہور تھا۔
گیلینا کووٹوک یوکرین میں زرعی صنعت سے وابستہ سب سے بڑے ادارے 'یو ایل ایف' کی سربراہ ہیں اور ان کے بقول چند ماہ کے اندر اندر ان کی کمپنی کو چین کو مکئی برآمد کرنے کی اجازت مل جائے گی۔
اگر ایسا ہوا تو یوکرائن براعظم امریکہ کے ممالک کے بعد چین کو مکئی برآمد کرنے والا پہلا ملک ہوگا۔
'یو ایل ایف' کے منتظمین نے چین جیسی بڑی منڈی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے تیاریاں شروع کردی ہیں اور کمپنی کے گوداموں کی گنجائش میں جلد ہی اتنا اضافہ کردیا جائے گا کہ وہاں 20 لاکھ ٹن تک خوراک رکھی جاسکے۔
کمپنی چین کی مالی معاونت سے چھ نئے 'گرین ایلیویٹر' بھی تعمیر کر رہی ہے جو جدید امریکی زرعی مشینریوں سے آراستہ اس کی استعدادِ کار میں مزید اضافے کا باعث بنیں گے۔
ان جدید مشینوں اور ٹیکنالوجی کے استعمال کے طفیل 'یو ایل ایف' کی فی ہیکٹر پیداوار باقی یوکرائن کی اوسط پیداوار سے 50 فی صد زائد ہے لیکن اس علاقے میں فصل اچھی ہونے کا دارو مدار بڑی حد تک موسم کی سازگاری پر بھی ہے۔
رواں برس یوکرائن، روس اور قازقستان سمیت بحرِ سیاہ کے ارد گرد کے دیگر ملکوں میں خشک سالی رہی ہے جس کے باعث خطے کی زرعی پیدوار میں 15 سے 20 فی صد کمی آنے کا اندیشہ ظاہر کیا گیا ہے۔
روایتی طور پر بحرِ سیاہ کا یہ علاقہ شمالی افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ کی گندم کی ضروریات پوری کرتا آیا ہے۔لیکن اس برس امکان ہے کہ خشک سالی کے باعث روس ان علاقوں کو اپنی برآمدات جاری نہیں رکھ سکے گا۔
اس طرح شمالی افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ اس علاقے میں چین کے حریف ثابت ہوسکتے ہیں کیوں کہ دونوں ہی یہاں ہونے والی پیداوار سے اپنی غذائی ضروریات پوری کرنا چاہتے ہیں۔
دریں اثنا ایک حالیہ رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ آئندہ دس برسوں میں ایشیا کے ایک وسیع علاقے کو مختلف وقفوں میں طویل دورانیے کی خشک سالی نشانہ بنا سکتی ہے۔
برطانوی تحقیقاتی ادارے 'سینٹر فار لو کاربن فیوچر' کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس متوقع خشک سالی سے شمالی چین، بھارت، منگولیا اور پاکستان زیادہ متاثر ہوں گے۔
تحقیقاتی رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ایشیا کے دیگر حصوں میں آئندہ برسوں کے دوران میں بارشوں کے موسم طویل اور شدید رہا کریں گے۔
ان پیش گوئیوں کے پیشِ نظر ایسا لگتا ہے کہ دنیا کی آبادی کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے مستقبل میں ایک خاصا مشکل کام ثابت ہوگا.
ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا کی آبادی کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے 2025ء تک خوراک کی پیدوار میں کم از کم 60 فی صد تک اضافہ کرنا ہوگا۔
یہ صورتِ حال اور اندازے آبادی کے اعتبار سے دنیا کے سب سے بڑا ملک چین کے لیے خاص طور پر پریشانی کا باعث ہیں جو اپنی غذائی ضروریات کی ایک بڑی مقدار دوسرے ملکوں سے درآمد کرتا ہے۔
اپنی آبادی کی مستقبل کی غذائی ضروریات پوری کرنے کی غرض سے چین نے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں 'فوڈ پروڈکشن' کے شعبوں میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔
اب ان ممالک کی فہرست میں یوکرائن بھی شامل ہوگیا ہے جو ایک صدی پیشتر تک گندم اور مکئی کی شاندار پیداوار کے باعث یورپ کی 'بریڈ باسکٹ' کے طور پر مشہور تھا۔
گیلینا کووٹوک یوکرین میں زرعی صنعت سے وابستہ سب سے بڑے ادارے 'یو ایل ایف' کی سربراہ ہیں اور ان کے بقول چند ماہ کے اندر اندر ان کی کمپنی کو چین کو مکئی برآمد کرنے کی اجازت مل جائے گی۔
اگر ایسا ہوا تو یوکرائن براعظم امریکہ کے ممالک کے بعد چین کو مکئی برآمد کرنے والا پہلا ملک ہوگا۔
'یو ایل ایف' کے منتظمین نے چین جیسی بڑی منڈی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے تیاریاں شروع کردی ہیں اور کمپنی کے گوداموں کی گنجائش میں جلد ہی اتنا اضافہ کردیا جائے گا کہ وہاں 20 لاکھ ٹن تک خوراک رکھی جاسکے۔
کمپنی چین کی مالی معاونت سے چھ نئے 'گرین ایلیویٹر' بھی تعمیر کر رہی ہے جو جدید امریکی زرعی مشینریوں سے آراستہ اس کی استعدادِ کار میں مزید اضافے کا باعث بنیں گے۔
ان جدید مشینوں اور ٹیکنالوجی کے استعمال کے طفیل 'یو ایل ایف' کی فی ہیکٹر پیداوار باقی یوکرائن کی اوسط پیداوار سے 50 فی صد زائد ہے لیکن اس علاقے میں فصل اچھی ہونے کا دارو مدار بڑی حد تک موسم کی سازگاری پر بھی ہے۔
رواں برس یوکرائن، روس اور قازقستان سمیت بحرِ سیاہ کے ارد گرد کے دیگر ملکوں میں خشک سالی رہی ہے جس کے باعث خطے کی زرعی پیدوار میں 15 سے 20 فی صد کمی آنے کا اندیشہ ظاہر کیا گیا ہے۔
روایتی طور پر بحرِ سیاہ کا یہ علاقہ شمالی افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ کی گندم کی ضروریات پوری کرتا آیا ہے۔لیکن اس برس امکان ہے کہ خشک سالی کے باعث روس ان علاقوں کو اپنی برآمدات جاری نہیں رکھ سکے گا۔
اس طرح شمالی افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ اس علاقے میں چین کے حریف ثابت ہوسکتے ہیں کیوں کہ دونوں ہی یہاں ہونے والی پیداوار سے اپنی غذائی ضروریات پوری کرنا چاہتے ہیں۔
دریں اثنا ایک حالیہ رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ آئندہ دس برسوں میں ایشیا کے ایک وسیع علاقے کو مختلف وقفوں میں طویل دورانیے کی خشک سالی نشانہ بنا سکتی ہے۔
برطانوی تحقیقاتی ادارے 'سینٹر فار لو کاربن فیوچر' کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس متوقع خشک سالی سے شمالی چین، بھارت، منگولیا اور پاکستان زیادہ متاثر ہوں گے۔
تحقیقاتی رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ایشیا کے دیگر حصوں میں آئندہ برسوں کے دوران میں بارشوں کے موسم طویل اور شدید رہا کریں گے۔
ان پیش گوئیوں کے پیشِ نظر ایسا لگتا ہے کہ دنیا کی آبادی کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے مستقبل میں ایک خاصا مشکل کام ثابت ہوگا.