جنوبی ایشیا میں مون سون کے موسم کے باوجود بھارت کے کئی حصوں میں بہت کم بارشیں ہورہی ہیں جس کے باعث ملک میں خوراک کی پیداوار میں کمی اور لاکھوں کاشت کاروں کی مشکلات میں اضافے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔
شمالی پنجاب کے ضلع پٹیالہ کا ایک چھوٹا کاشت کار ست نام سنگھ بہرو نے جب جون کے وسط میں اپنی سات ایکٹر زمین پر چاول کی پنیری لگائی تھی تو وہ بہت پرامید تھا کیونکہ محکمہ موسمیات نے مون سون کے دوران معمول کی بارشیں ہونے کی پیش گوئی کی تھی ، جس کی وجہ سے بہت سے دوسرے کسانوں کی طرح ست نام سنگھ کو بھی اچھی فصل کی توقع تھی۔
مگر کاشت کے چھ ہفتوں کے بعد ست نام سنگھ بہت پریشان ہے کیونکہ ساون خالی جارہاہے۔
اس کا کہناہے کہ اپنی فصل کو پانی دینے کے لیے اسے ٹیوب ویل چلانے کی ضرورت پڑ رہی ہے لیکن اس کے گاؤں میں بجلی صرف چند ہی گھنٹوں کے لیے آتی ہے۔ چنانچہ اسےٹیوب ویل کے لیے ڈیزل خریدنا پڑ رہا جس سے اس کے اخراجات بہت بڑھ گئے ہیں۔
نصف سے زیادہ بھارتی کسانوں کی پانی کی ضروریات مون سون کی بارشوں سے پوری ہوتی ہیں لیکن اس سال 20 فی صد کم بارشیں ہوئی ہیں جس سے خوراک پیدا کرنے والے علاقوں میں خدشات بڑھ رہے ہیں کیونکہ وہاں بارشیں معمول سے نصف سے بھی کم ہوئی ہیں۔
گجرات، مہاراشٹر اور آندھرا پردیش اور کرناٹکاکی جنوبی ریاستوں میں کاشت کار کپاس، گنا اور تیل پیدا کرنے والی فصلوں پر بارشوں کی کمی کے منفی اثرات سے پریشان ہیں۔
وزیر اعظم من موہن سنگھ نے کہاہے کہ ان کی حکومت صورت حال کے مقابلے کے تیار ہے ۔ حکومت کا کہناہے کہ وہ شمالی ریاستوں کے لیے بجلی اور ڈیزل کی فراہمی بڑھا رہی ہے۔
بھارت کے پاس گندم اور چاول کا کافی فاضل ذخیرہ موجود ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ کم پیداوار کے باوجود خوراک کی کمی کا خطرہ نہیں ہے۔
محکمہ موسمیات نے آئندہ دنوں میں بارشوں کی پیش گوئی کی ہے۔
ملک میں خوراک کی قیمتوں میں اضافہ جاری ہے اور اگر مون سون کھل کر نہ برسا تو کھانے پینے کی چیزیں مزید مہنگی ہونے کا خطرہ ہے۔
حکومت یہ کہہ چکی ہے کہ وہ اگلے مہینے اپنی زرعی پیداوار کی برآمدی پالیسی پر نظرثانی کرے گی۔
بھارت گندم، چاول اور گنا پیدا کرنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ اگر پیداوار کم رہی تو وہ ان کی برآمد پر پابندی لگا سکتا ہے۔
شمالی پنجاب کے ضلع پٹیالہ کا ایک چھوٹا کاشت کار ست نام سنگھ بہرو نے جب جون کے وسط میں اپنی سات ایکٹر زمین پر چاول کی پنیری لگائی تھی تو وہ بہت پرامید تھا کیونکہ محکمہ موسمیات نے مون سون کے دوران معمول کی بارشیں ہونے کی پیش گوئی کی تھی ، جس کی وجہ سے بہت سے دوسرے کسانوں کی طرح ست نام سنگھ کو بھی اچھی فصل کی توقع تھی۔
مگر کاشت کے چھ ہفتوں کے بعد ست نام سنگھ بہت پریشان ہے کیونکہ ساون خالی جارہاہے۔
اس کا کہناہے کہ اپنی فصل کو پانی دینے کے لیے اسے ٹیوب ویل چلانے کی ضرورت پڑ رہی ہے لیکن اس کے گاؤں میں بجلی صرف چند ہی گھنٹوں کے لیے آتی ہے۔ چنانچہ اسےٹیوب ویل کے لیے ڈیزل خریدنا پڑ رہا جس سے اس کے اخراجات بہت بڑھ گئے ہیں۔
نصف سے زیادہ بھارتی کسانوں کی پانی کی ضروریات مون سون کی بارشوں سے پوری ہوتی ہیں لیکن اس سال 20 فی صد کم بارشیں ہوئی ہیں جس سے خوراک پیدا کرنے والے علاقوں میں خدشات بڑھ رہے ہیں کیونکہ وہاں بارشیں معمول سے نصف سے بھی کم ہوئی ہیں۔
گجرات، مہاراشٹر اور آندھرا پردیش اور کرناٹکاکی جنوبی ریاستوں میں کاشت کار کپاس، گنا اور تیل پیدا کرنے والی فصلوں پر بارشوں کی کمی کے منفی اثرات سے پریشان ہیں۔
وزیر اعظم من موہن سنگھ نے کہاہے کہ ان کی حکومت صورت حال کے مقابلے کے تیار ہے ۔ حکومت کا کہناہے کہ وہ شمالی ریاستوں کے لیے بجلی اور ڈیزل کی فراہمی بڑھا رہی ہے۔
بھارت کے پاس گندم اور چاول کا کافی فاضل ذخیرہ موجود ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ کم پیداوار کے باوجود خوراک کی کمی کا خطرہ نہیں ہے۔
محکمہ موسمیات نے آئندہ دنوں میں بارشوں کی پیش گوئی کی ہے۔
ملک میں خوراک کی قیمتوں میں اضافہ جاری ہے اور اگر مون سون کھل کر نہ برسا تو کھانے پینے کی چیزیں مزید مہنگی ہونے کا خطرہ ہے۔
حکومت یہ کہہ چکی ہے کہ وہ اگلے مہینے اپنی زرعی پیداوار کی برآمدی پالیسی پر نظرثانی کرے گی۔
بھارت گندم، چاول اور گنا پیدا کرنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ اگر پیداوار کم رہی تو وہ ان کی برآمد پر پابندی لگا سکتا ہے۔