رسائی کے لنکس

کرونا وائرس پر ڈبلیو ایچ او کی تحقیق میں سیاسی دباؤ قبول نہیں، چین


چین کے شہر ووہان میں قائم انسٹی ٹیوٹ آف وائرولوجی، جس کے بارے میں خدشہ ہے کہ کرونا وائرس یہاں سے لیک ہوا تھا۔
چین کے شہر ووہان میں قائم انسٹی ٹیوٹ آف وائرولوجی، جس کے بارے میں خدشہ ہے کہ کرونا وائرس یہاں سے لیک ہوا تھا۔

چین کی وزارت خارجہ نے جمعرات کے روز عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کرونا وائرس کے آغاز کے بارے میں نئی تحقیقات کو ممکنہ سیاسی دباؤ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بین الاقوامی ادارے کی کوششوں کی حمایت کرے گا۔

ڈبلیو ایچ او نے بدھ کے روز 25 ماہرین کی ایک مجوزہ فہرست جاری کی ہے جو مہلک وائرس کی شروعات کے متعلق تحقیقات کو آگے بڑھائیں گے۔ اس سے قبل چین میں عالمی ادارے کے تحت کی جانے والی تحقیق کے نتائج پر بعض حلقوں کی جانب سے اعتراضات کیے گئے تھے۔

کرونا وائرس کے ابتدائی کیسز کی نشاندہی 2019 کے آخر میں چین کے شہر ووہان میں ہوئی تھی۔

فروری میں عالمی ادارہ صحت کی ٹیم کے دورے کے دوران بیجنگ پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ اس نےابتدائی کیسز کے سلسلے میں درکار ڈیٹا کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالی تھی۔ اس کے بعد چین نے مزید تحقیقات کے مطالبات کی یہ کہتے ہوئے مخالفت کی کہ امریکہ اور دیگر ممالک اس معاملے کو سیاسی رنگ دے رہے ہیں۔

اب عالمی ادارہ صحت کے تازہ ترین اقدام کے بعد چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لی جیان نے کہا کہ چین سائنسی بنیادوں پر وائرس کا کھوج لگانے کی عالمی کوششوں کی حمایت اور اس میں تعاون جاری رکھے گا اور اس سلسلے میں کسی بھی قسم کا سیاسی مفاد اٹھانے کی سختی سے مخالفت کرے گا۔

ترجمان نے اپنی روزانہ کی بریفنگ کے دوران کہا کہ ہمیں توقع ہے کہ عالمی ادارہ صحت کا سیکرٹریٹ اور مشاورتی گروپ سمیت متعلقہ تمام فریق مؤثر اور ذمہ دارانہ سائنسی رویے کے تحت کام کریں گے۔

اس سے قبل چین میں ڈبلیو ایچ او کی زیر قیادت ماہرین کی ٹیم کے نتائج نتیجہ خیز نہیں تھے اور ماہرین نے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ کرونا وائرس کا ووہان میں قائم سائنسی لیبارٹری سے لیک ہونے کے ٹھوس شواہد نہیں ملے، جس پر کئی سائنس دانوں نے تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ صحیح جانچ پڑتال نہیں کی گئی۔

ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ایڈہانوم گیبریئس نے بعد میں اعتراف کیا کہ لیب سے وائرس کے لیک ہونے کے نظریے کو مسترد کرنا قبل از وقت تھا۔

چین اپنے ملک میں وائرس کے جنم لینے کے نظریے پر بار بار سوال اٹھاتے ہوئے کہہ چکا ہے کہ اس سلسلے میں امریکہ کی فوجی لیبارٹریوں میں بھی تفتیش کی جانی چاہیے۔ تاہم، اس نے اس بارے میں کوئی ٹھوس شواہد پیش نہیں کیے۔

چین میں ماسک، سخت لاک ڈاؤن اور دیگر اقدامات کے ذریعے کرونا وائرس کی منتقلی پر بڑی حد تک قابو پا لیا گیا ہے۔

امریکی فوجیوں کو ویکسین لگانے کا عمل تقریباً مکمل

ایک اور خبر کے مطابق امریکی فوج کے اہل کاروں میں کوویڈ 19 کے کیسز میں پچھلے مہینے سے مسلسل کمی آ رہی ہے، جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ محکمہ دفاع ویکسین لگانے کی ڈیڈ لائن آنے سے قبل ہی اپنے اہل کاروں کو ویکسین لگانے کا عمل تقریباً مکمل کر چکا ہے۔

وائس آف امریکہ کو حاصل ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق کرونا وائرس کے کیسز کی تعداد جو 8 ستمبر کے ہفتے میں 4،902 تھی، گزشتہ ہفتے کم ہونے کے بعد 863 کیسوں پر آ گئی ہے۔ یوں یہ تعداد جون کے اوائل کے بعد فوج میں عالمی وبا میں مبتلا ہونے والے اہل کاروں کی کم ترین ہے۔

امریکی محکمہ دفاع کے ترجمان میجر چارلی ڈائٹز نے بدھ کے روز وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم بالکل یہی چاہتے تھے۔

سیکرٹری دفاع لائیڈ آسٹن نے 25 اگست کو ایک میمو جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ کوویڈ-19 سے بچاؤ کی ویکسین نہ لگوانے والے اہل کاروں کو جرمانے کا سامنا کرنا پڑے گا۔

وائس آف امریکہ کو حاصل ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق حاضر سروس اہل کاروں میں سے بری فوج کے 91 فی صد، بحریہ کے 99 فی صد، فضائیہ اور خلائی فورس کے 96 فی صد اور میرین کور کے 91 فی صد فوجیوں کو مکمل یا جزوی طور پر ویکسین لگ چکی ہے۔

صدر جو بائیڈن نے وفاقی سویلین ملازمین کو ویکسین کی تمام خوراکیں لگانے کا ہدف 22 نومبر مقرر کیا ہے، جس پر سرکاری ادارے تیزی سے کام کر رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG