رسائی کے لنکس

چین کے ڈبلیو ٹی او میں شمولیت کے 10 سال


چین کے ڈبلیو ٹی او میں شمولیت کے 10 سال
چین کے ڈبلیو ٹی او میں شمولیت کے 10 سال

دس برس پہلے آج ہی کے روز، چین ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں شامل ہوا تھا۔ اس کے بعد سے چین مسلسل ترقی کرتا رہا ہے اور اب دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بن گیا ہے ۔ کروڑوں چینی شدید غربت کے شکنجے سے نکل آئے ہیں۔ لیکن اگرچہ چین نے اپنے اقتصادی نظام میں ڈرامائی اصلاحات کی ہیں، پھر بھی سرکاری کنٹرول میں کام کرنے والی معیشت سے کھلی منڈی کی معیشت تک کے سفر میں بہت سی دشواریاں پیش آئی ہیں۔

چین میں گزشتہ دس برسوں میں تاریخی تبدیلیاں آئی ہیں۔ سرکاری اخبار چائنا ڈیلی میں ایک حالیہ مضمون میں کہا گیا ہے کہ چین سرمایہ کاری کے لیے مقبول ترین جگہ بن گیا ہے، اور 2002ء سے باہر کی دنیا میں ہونے والی چینی سرمایہ کاری ہر سال تقریباً دگنی ہو جاتی ہے۔

اخبار میں مزید کہا گیا ہے کہ چینی کمپنیوں نے بڑی ترقی کی ہے اور اب دنیا کی فارچون 500 کمپنیوں کی فہرست میں درج 54 کمپنیاں چینی ہیں۔ 2001ء میں جب چین ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کا رکن بنا، یہ تعداد صرف 12 تھی ۔ اس تبدیلی سے عالمی معیشت پر جو گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں ، ان پر چینی عہدے داروں کو بھی حیرت ہوئی ہے ۔ Long Yongtu ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں چین کی رکنیت کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’چین کی معیشت میں ترقی ، بر آمدات اور درآمدات میں اضافہ اور بعض صنعتوں میں توسیع، ہماری توقع سے کہیں زیادہ ہے ۔ دس برس میں گاڑیوں کی تعداد بیس لاکھ سے بڑھ کر ایک کروڑ 80 لاکھ ہو گئی ہے۔‘‘

لیکن چین کی اقتصادی ترقی کی قیمت امریکہ کو اور اشیا ء تیار کرنے والے دوسرے ملکوں کو ادا کرنی پڑی ہے ۔ بھاری مقدار میں چین کی بنی ہوئی سستی چیزوں کی بر آمد سے، دوسرے ملکوں کی اشیاء کی پیداوار متاثر ہوئی ہے اور ان کی صنعتوں کو نقصان پہنچا ہے ۔ چین کو امریکہ کی بر آمدات میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن چین کے ساتھ تجارت میں خسارہ بہت بڑھ گیا ہے ۔ تشویش یہ ہے کہ چینی کمپنیوں کو عالمی معیشت تک رسائی حاصل ہو گئی ہے لیکن غیر ملکی کمپنیوں کو چین میں مختلف قسم کا تجربہ ہو رہا ہے۔

ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں امریکہ کے سفیرمائیکل پنک کہتے ہیں کہ گذشتہ پانچ برسوں کے دوران، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے دوسرے ارکان نے ایک پریشان کن رجحان یہ دیکھا ہے کہ چینی معیشت میں حکومت کی طرف سے مداخلت کا رجحان بڑھ گیا ہے۔ چین کے ساتھ بہت سے تجارتی تنازعات چین کی اس پالیسی کی وجہ سے پیدا ہوتےہیں کہ چینی حکومت سرکاری ملکیت والے اور ملکی کاروباری اداروں کو تحفظ فراہم کرتی ہے ۔

ایک متنازعہ شعبہ ٹکنالوجی کے جبری تبادلے کا ہے ۔ U.S.-China Economic and Security Review Commission, کے ایک رکن Patrick Mulloy اس کی وضاحت کرتے ہیں کہ ’’حکومت کہتی ہے کہ اگر آپ چین کے دوست بننا چاہتے ہیں تو اشیاء کی تیاری اور ریسرچ، یہاں چین میں کیجیئے اور ہماری معیشت کی ترقی میں مدد دیجیئے ۔اور کمپنیاں کہتی ہیں کہ شاید ہم یہ ٹکنالوجی انہیں دے سکتے ہیں کیوں کہ ہم نے اس ٹکنالوجی کا کچھ حصہ اپنے پاس روک لیا ہے ۔ لیکن جب 100 کمپنیاں چین کو ٹکنالوجی منتقل کر رہی ہوں اور چین کی مدد کر رہی ہوں، تو پھر باقی کچھ نہیں بچتا۔ یہ چین کے لیے تو بہت اچھا ہے اور شاید ہم بھی یہی کچھ کرتے، لیکن یہ ہمارے لیے اچھا نہیں ہے، اور چین نے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن سے جو وعدے کیے ہیں، ان کے بھی خلاف ہے۔‘‘

چین میں کام کرنے والی غیر ملکی کمپنیاں اکثر یہ شکایت کرتی ہیں کہ وہاں کام کرنے والے کاروباری اداروں کو بے شمار لائسنس حاصل کرنے پڑتے ہیں، اور یہ لائسنس حاصل کرنے میں بہت وقت لگتا ہے اور بہت دشواری ہوتی ہے۔

چین کی کرنسی کی کم قدر ایک طویل عرصے سے آزاد تجارت کی راہ میں رکاوٹ بنی رہی ہے۔ امریکی قانون ساز ایسا قانون منظور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کے ذریعے کرنسی کی قیمت کم رکھنے پر تعزیرات عائد کی جا سکیں۔ کرنسی کی قیمت کم ہوتی ہے تو بر آمدات سستی ہو جاتی ہیں۔

ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ چین اپنی صنعتوں کو مالی امداد فراہم کرتا ہے جس کی وجہ سے بیرونی ملکوں میں اس کی چیزیں سستی اور خریداروں کے لیے زیادہ پُر کشش ہو جاتی ہیں۔

چین کی مارکیٹ میں اب تک غیر ملکی کریڈٹ کارڈ کمپنیوں کو رسائی حاصل نہیں ہو سکی ہے، اگرچہ بیجنگ نے 2006ء میں وعدہ کیا تھا کہ وہ انھیں چین میں کام کرنے کی اجازت دے دے گا۔ Mulloy کہتے ہیں کہ اس قسم کی مسلسل رکاوٹوں کا تقاضہ ہے کہ کوئی قدم اٹھایا جائے۔ ان کے مطابق ’’ہمیں ان مسائل کو سمجھنا چاہیئے اور ان پر قابو پانا چاہیئے۔ چین ہمارا دشمن نہیں ہے، لیکن ان کی ایک حکمت عملی ہے جس کے ذریعے وہ اپنے لوگوں کو جلد از جلد اقتصادی ترقی کے فوائد دلانا چاہتے ہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس اس کے جواب میں کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔‘‘

اب جب کہ امریکہ میں بے روزگاری کی شرح بہت زیادہ ہے، اور معیشت ڈانوا ڈول ہے، تو چین کے ساتھ تجارت، سیاسی مباحثوں کا اور بھی زیادہ مقبول موضوع بن گیا ہے۔ امریکہ کا صدارتی انتخاب اب زیادہ دور نہیں۔ اس لیے یہ موضوع بھی زیر بحث آتا رہے گا۔

لیکن واشنگٹن میں CATO انسٹی ٹیوٹ کے ڈینیئل آئکینسن کہتے ہیں کہ یہ تنازعات معمول کا حصہ ہیں اور ان کی وجہ سے چین کو ورلڈ ٹریڈ آرگنائیشن میں ہونا ضروری ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’یہ تعلق پختہ ہوتا جا رہا ہے۔ دنیا کی دوسری اور پہلی سب سے بڑی معیشتوں نے خوب ترقی کی ہے۔ اختلافات اور شکایتیں بھی ضرور ہوں گی۔ چین کے مقابلے میں یورپ اور کینیڈا کے ساتھ ہمارے تجارتی تنازعات بہت زیادہ تھے۔ جب تعلقات پختہ ہو جاتے ہیں تو اختلافات اسی طرح طے ہوتے ہیں۔‘‘

آئکینسن کے خیال میں زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ چین میں سماجی سطح پر بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔ چین میں تیز رفتار اقتصادی ترقی جاری ہے لیکن اس کے ساتھ ہی عوام میں کرپشن، ماحول میں آلودگی، اور املاک پر قبضہ کرنے کے بارے میں، تشویش بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ اور اگر چین میں بڑے پیمانے پر کوئی ہلچل ہوئی، تو اس سے ساری دنیا کی معیشت متاثر ہو گی۔

XS
SM
MD
LG