جاپان کے نئے وزیر اعظم فومیو کی شیدا نے جمعے کے روز کہا ہے کہ عہدہ سنبھالنے کے بعد چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ اپنی پہلی بات چیت کے دوران انھوں نے اتفاق کیا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ تشویش کے یکساں امور پر دونوں مل کر کام کریں گے۔
ٹیلی فون پر شی کے ساتھ رابطے کے بعد کی شیدا نے نشریاتی ادارے، این ایچ کے کو بتایا کہ ''میں نے دونوں ملکوں کو درپیش معاملات پر اپنے ملک کی جانب سے تشویش کا برملا اظہار کیا، اور میں نے مشورہ دیا کہ ہمیں آئندہ مکالمے کو جاری رکھنا ہو گا''۔
کی شیدا نے کہا کہ بات چیت میں انھوں نے جن امور کو اٹھایا ان میں متنازع جزیروں کا معاملہ شامل ہے جنھیں جاپان میں سنکاکو اور چین میں دیاؤ کہا جاتا ہے؛ ساتھ ہی میں نے ہانگ کانگ کا معاملہ اور سنکیانگ میں ایغوروں کے ساتھ چین کے سلوک پر بات کی۔ انھوں نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ ان امور پر کیا بات ہوئی۔
وہ جاپان کے سابقہ وزیر خارجہ ہیں۔ کی شیدا نے کہا کہ انھوں نے تقریباً 30 منٹ تک بات کی۔ بقول ان کے، ''شی اور میں نے شمالی کوریا سمیت، کئی مشترکہ معاملات پر مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا''۔
چین کی کمیونسٹ پارٹی کے سرکاری اخبار 'پیپلز ڈیلی' نے کہا ہے کہ گفتگو کے دوران شی نے کی شیدا کو بتایا کہ انھیں چاہیے کہ دونوں تائیوان جیسے حساس معاملات پر ''مناسب طریقے سے'' بات کریں۔
امریکہ کے ساتھ قریبی سیکیورٹی تعلقات کا اعادہ کرتے ہوئے، کی شیدا کی حکومت نے منگل کے روز تائیوان کے خود مختار علاقے سے متعلق چین کے موقف کے خلاف زیادہ جارحانہ انداز اپنانے کی بات کرتے ہوئے کہا کہ جاپان کئی نوعیت کے ''منظر ناموں'' کے لیے تیار ہے۔
تائیوان کے معاملے پر تناؤ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، جسے چین اپنا علاقہ قرار دینے کا دعویٰ کرتا ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ ضرورت پڑی تو اس پر طاقت کے زور پر قبضہ کیا جا سکتا ہے۔ تائیوان کا کہنا ہے کہ وہ ایک آزاد ملک ہے جو اپنی آزادی اور جمہوریت کا دفاع کرے گا۔
روزنامہ پیپلز ڈیلی نے شی کے حوالے سے بتایا کہ کی شیدا سے کہا ہے کہ ''اس وقت چین جاپان تعلقات میں مواقع اور چیلنج دونوں ہی موجود ہیں''۔
پیپلز ڈیلی نے مزید کہا کہ شی نے کی شیدا سے یہ بھی کہا کہ چین اور جاپان کو متحرک ہو کر مکالمے، معاشی پالیسی کے روابط کو مضبوط اور علاقائی تعاون کو فروغ دینا ہو گا۔