نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی دو مساجد پر حملوں کے مقدمے کی دوسری سماعت جمعے کو ہو گی جس میں گرفتار ملزم پر 88 نئے الزامات کی فردِ جرم عائد کی جائے گی۔
استغاثہ نے کہا ہے کہ ملزم برینٹن ہیریسن ٹیرنٹ پر کل 89 الزامات کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا جن میں قتل کے 50 اور اقدامِ قتل کے 39 الزامات شامل ہوں گے۔
کرائسٹ چرچ کی دو مساجد پر 15 مارچ کو ہونے والی فائرنگ کے نتیجے میں 50 نمازی ہلاک اور لگ بھگ 50 زخمی ہو گئے تھے۔
فائرنگ کا یہ واقعہ نیوزی لینڈ کی تاریخ کا سب سے بڑا اور بدترین مہلک واقعہ تھا جس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
فائرنگ کے واقعات کے کچھ دیر بعد ہی کرائسٹ چرچ کی پولیس نے حملوں کے الزام میں 28 سالہ برینٹن ہیریسن کو حراست میں لیا تھا جو آسٹریلوی شہری ہے اور کچھ ماہ سے نیوزی لینڈ میں مقیم تھا۔
گرفتاری کے اگلے ہی روز ملزم کو ضلعی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں اس پر قتل کے صرف ایک الزام پر مبنی فردِ جرم عائد کی گئی تھی۔
عدالت نے ابتدائی کارروائی کے بعد ملزم کو مزید تفتیش کے لیے پانچ اپریل تک کے لیے پولیس کے حوالے کر دیا تھا۔ استغاثہ نے پہلی سماعت پر ہی عدالت کو آگاہ کیا تھا کہ ملزم کے خلاف مزید الزامات پر فردِ جرم آئندہ سماعت میں پیش کی جائے گی۔
پہلی سماعت کے دوران ملزم نے عدالت کی طرف سے مقرر کردہ وکیل کو بھی قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ مقدمے میں اپنا دفاع خود کرے گا۔
تجزیہ کاروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مجرم اپنا دفاع خود کرنے کی آڑ میں عدالت میں سفید فام نسل پرستی پر مبنی اپنے نظریات کا پرچار کرنا چاہتا ہے۔
مقدمے کی سنگینی کے پیشِ نظر نیوزی لینڈ کے حکام نے کرائسٹ چرچ حملوں کے مقدمے کو ہائی کورٹ منتقل کر دیا ہے۔
ملزم کو بھی نیوزی لینڈ کے سب سے بڑے شہر آک لینڈ کی انتہائی حساس جیل میں رکھا گیا ہے جہاں حکام کے مطابق اسے ٹی وی، ریڈیو، اخبار اور ملاقاتوں کی سہولتیں دستیاب نہیں۔
حکام کے مطابق ملزم کو آک لینڈ میں ہونے کی وجہ سے جمعے کی سماعت میں عدالت نہیں لایا جائے گا اور وہ ویڈیو کانفرنس کے ذریعے سماعت میں شریک ہو گا۔
نیوزی لینڈ کی پولیس نے کہا ہے کہ وہ ملزم کے خلاف مزید الزامات کی فردِ جرم تیار کرنے پر کام کر رہی ہے۔
نیوزی لینڈ کی حکومت نے ملکی قوانین کے تحت مقدمے کی کارروائی کی میڈیا کوریج پر بھی سخت پابندی لگا دی ہے۔
مقدمے کی سماعت کرنے والے جج نے کہا ہے کہ ان کے پاس 25 میڈیا اداروں کی جانب سے مقدمے کی فلم بندی، آڈیو ریکاڈنگ اور تصاویر لینے کی اجازت سے متعلق درخواستیں آئی تھیں جو تمام مسترد کر دی گئی ہیں۔
تاہم جج نے واضح کیا کہ صحافی سماعت کے دوران کمرۂ عدالت میں آ سکتے ہیں اور انہیں نوٹس لینے کی بھی اجازت ہو گی۔