پنجاب کے ضلع گوجرانوالہ میں پولیس نے ایک 16 سالہ مسیحی لڑکے کو توہینِ مذہب کے الزام میں گرفتار کیا ہے لیکن اس واقعے سے متعلق متضاد خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں۔
تحصیل وزیرآباد میں اتوار کو اس مسیحی لڑکے کو اس وقت پولیس نے موقع پر پہنچ کر تحویل میں لیا جب مشتعل افراد اسے مبینہ طور پر قرآن نذرِ آتش کرنے کی وجہ سے زدوکوب کر رہے تھے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مقامی پولیس کے ایک اہلکار نے پیر کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ ملزم کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کر کے جیل بھیج دیا گیا ہے۔
ان کے بقول ملزم نے "قرآن نذر آتش کرنے کا اعتراف کیا اور لڑکے کا کہنا تھا کہ اس کے دل نے اسے ایسا کرنے کا کہا تو اس نے کر دیا۔"
توہینِ مذہب کے اس مقدمے میں مدعی علاقے کی ایک مسجد کے پیش امام قاری رانا ارشد ہیں جن کے مطابق انھیں نواز نامی شخص نے بتایا تھا کہ اس نے مسیحی لڑکے کو مبینہ طور پر قرآن جلاتے ہوئے خود دیکھا۔
پولیس عہدیدار نے بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ نواز علاقے کا پھل فروش ہے اور واقعے کا عینی شاہد ہونے کا دعویدار ہے جس کے شور مچانے پر لوگ وہاں جمع ہوئے اور انہوں نے ملزم پر تشدد شروع کیا۔
تاہم پولیس نے بروقت پہنچ کر ملزم کو تحویل میں لے لیا۔ ذرائع ابلاغ میں ایسی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ پولیس نے جب ملزم کو جامکے کے تھانے میں بند کیا تو مشتعل افراد نے وہاں پہنچ کر زبردستی ملزم تک پہنچنے کی کوشش کی جس کے بعد لڑکے کو علی پور چٹھہ کے پولیس اسٹیشن منتقل کر دیا گیا۔
تاہم پولیس اہلکار نے تھانے پر مشتعل افراد کے دھاوے کی اطلاعات کی تردید کی۔
ادھر ملزم کے والد اسٹیفن مسیح کی طرف سے یہ بیان سامنے آیا ہے کہ نواز نے مبینہ طور پر ذاتی عناد کی وجہ سے ان کے بیٹے پر یہ الزام عائد کیا۔
اسٹیفن کا کہنا تھا کہ ان کا بیٹا کچرے سے ردی کاغذ اور خالی بوتلیں جمع کرنے کا کام کرتا تھا اور نواز بھی اسی کام سے وابستہ تھا اور یہ الزام "پیشہ ورانہ رقابت" کا شاخسانہ ہے۔
پاکستان میں توہینِ مذہب ایک حساس معاملہ ہے اور قانون کے مطابق اس کی سزا موت ہے۔ ماضی میں ایسے کئی واقعات سامنے آچکے ہیں کہ جن میں لوگ ذاتی عناد کی وجہ سے کسی پر توہینِ مذہب کا الزام عائد کر کے اس کی زندگی کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔
انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے رکن ندیم انتھونی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ توہین مذہب کے الزامات میں استغاثہ پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ درست انداز میں اس کی چھان بین اور پیروی کرے اور ان کے بقول ایسے کئی واقعات موجود ہیں کہ جن میں برسوں کی قانونی جنگ اور قید کاٹنے کے بعد لوگوں کو ان الزامات سے بری بھی کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں توہین مذہب کے الزامات کا جائزہ لیا جائے تو اس کے ملزمان کی اکثریت مسلمانوں کی ہے لیکن کسی مسیحی پر یہ الزام انتہائی خطرناک اور خوفناک مضمرات کا حامل ہوتا ہے۔
رواں ماہ ہی اسلام آباد کی ہائی کورٹ کے ایک جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ایک مقدمے کے تفصیلی فیصلے میں پارلیمان کو تجویز دی تھی کہ توہینِ مذہب کے قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے ایسی ترمیم کی جائے کہ جھوٹا الزام لگانے والے کو بھی وہی سزا مل سکے جو اس جرم کا ارتکاب کرنے والے کے لیے قانون میں موجود ہے۔
فی الوقت جھوٹا الزام لگانے والے پر قانون میں جو دفعہ لگتی ہے اس کے تحت ملزم پر چھ ماہ قید کی سزا یا ایک ہزار روپے جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے۔