خیبر پختونخوا کی وکلا برادری اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے 'سول ایکشن اینڈ ایڈ لا' واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ قانون انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور آئین سے متصادم ہے۔
سولِ ایکشن اینڈ ایڈ قانون کا نفاذ صوبے بھر میں رواں سال پانچ اگست کو کیا گیا تھا۔ اس سے قبل یہ صرف قبائلی علاقوں میں نافذ تھا۔
اس قانون کے تحت فوج اور دیگر سیکیورٹی اداروں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی مشتبہ شخص کو گرفتار کر کے اپنی تحویل میں رکھ سکتے ہیں۔
وکلا کی بین الاقوامی تنظیم ’آئی سی جے‘ کے ایشیا ریجن کے ڈائریکٹر زریڈرک رواسکی نے ایک بیان میں سول ایکشن ایڈ لا کے نفاذ سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا خدشہ ظاہر کیا تھا اور اس قانون کی واپسی کا مطالبہ کیا تھا۔ جس کے بعد وکلاء اور اپوزیشن رہنماؤں نے بھی اس قانون کی واپسی کا مطالبہ کیا ہے۔
پشاور ہائی کورٹ کے سابق جج اور انسانی حقوق کمشن کے سابق سربراہ شیر محمد خان نے کہا ہے کہ یہ قانون 2011 میں صرف وفاق کے زیرِ انتظام سابق قبائلی علاقوں میں نافذ تھا۔ عاصمہ جہانگیر کے ہمراہ اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اس قانون کے خلاف اپیل ابھی تک سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہے۔
انہوں نے اس قانون کے خلاف مزاحمت کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ مکمل طور پر آئین کے خلاف ہے۔
خیبر پختونخوا کی اپوزیشن جماعتوں میں شامل عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما سردار بابک نے بھی اس مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے سوِل ایکشن ایڈ لا کے خلاف تحریک التواء صوبائی اسمبلی میں جمع کرا دی ہے۔
سردار بابک نے کہا کہ اس قانون کے نفاذ سے ایک طرح سے مارشل لاء نافذ ہو گیا ہے لہٰذا وہ اسے کسی بھی صورت میں ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
پشاور ہائی کورٹ بار کے صدر لطیف آفریدی نے بھی اس قانون کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے کسی بھی شخص کو بغیر عدالتی کارروائی کے 10 برس تک حراست میں رکھا جا سکتا ہے جو ان کے بقول آئین اور انسانی حقوق کے منافی ہے۔
انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کمشن نے اسے پہلے ہی سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہوا ہے۔ ان کے بقول اب وہ بھی پشاور ہائی کورٹ بار کے صدر کی حیثیت سے اس قانون کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے۔
دوسری جانب صوبائی وزیرِ قانون سلطان محمّد خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ قانون 2011 میں نافذ کیا گیا تھا۔ اس کا بنیادی مقصد دہشت گردی کے خاتمے کے لیے فوج اور سیکیورٹی فورسز کو اختیارات دینا تھا۔
انہوں نے کہا کہ مذکورہ قانون قبائلی علاقوں کے انضمام کے بعد خیبر پختونخوا اسمبلی سے بھی منظور ہو چکا ہے۔
سلطان محمّد خان نے کہا کہ اس وقت بھی متعدد خطرناک دہشت گرد زیرِ حراست ہیں اور کئی روپوش ہیں۔ اس قانون کے خاتمے سے مشکلات میں اضافہ ہو گا۔
واضح رہے کہ ملک کے دیگر صوبوں اور علاقوں کے برعکس خیبر پختونخوا میں عرصہ دراز سے مختلف قسم کے قوانین نافذ ہیں۔ وفاق کے زیرِ انتظام سابق قبائلی علاقوں میں فرنٹیئر کرائم ریگولیشن کے نام سے ایک قانون نافذ ہے۔ جس کے تحت سول انتظامیہ کے ساتھ فوجی عہدے دار بھی امن و امان قائم رکھنے کے لیے مختلف اقدامات کر سکتے ہیں۔
مالاکنڈ ڈویژن اور ہزارہ ڈویژن میں شامل کوہستان اور طورغر میں شریعت ریگولیشن اور صوبے کے زیرِ انتظام اضلاع میں سول لا نافذ ہے۔
پانچ اگست 2019 کو ایک آرڈیننس کے تحت سول ایکشن اینڈ ایڈ لا کا نفاذ صوبے بھر میں کیا گیا تھا۔