یروشلم میں مسجد اقصی کے احاطے میں جمعہ کو فجر سے قبل مسلمانوں کے لیےرمضان کے مقدس مہینے میں نماز کے لیے جمع ہزاروں فلسطینیوں کی اسرائیلی پولیس کے ساتھ چھڑپیں ہوئی ہیں جن میں، طبی عملےکے مطابق، کم از کم152 فلسطینی زخمی ہوگئے ہیں۔
یہ چھڑپیں خاص طور پر ایسےحساس وقت میں ہوئی ہیں جب جمعہ کو ہی غروب آفتاب کے وقت سے یہودیوں کی ہفتہ بھر کی تعطیلات کا آغاز ہورہا ہے اور جمعہ کو ہی مسیحیوں کا مقدس ہفتہ شروع ہورہا ہے جس کا اختتام اتوار کو ایسٹر پر ہوتا ہے۔ تعطیلات کے باعث ہزاروں لوگوں کے قدیمی شہریروشلم میں آنے کی توقع ہے جو تینوں مذاہب کے لیے مقدس مقام ہے۔
جھڑپیں شروع ہونے کے چندہی گھنٹے بعد پولیس نے اعلان کیا کہ انھوں نے تشدد کا خاتمہ کردیا ہے اور سینکٹروں مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ مسجد کو دوبارہ کھول دیا گیا اور جمعہ کی دوپہر کی نماز معمول کے مطابق ہوگی، جس میں ہزاروں لوگوں کی شرکت متوقع ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائیس نے ایک بیان میں کہا کہ امریکہ کو آج مسجد اقصی میں ہونے والے پرتشدد واقعات پر تشویش ہے۔ امریکہ فریقین سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اشتعال انگیز اقدامات، بیانات سے پرہیز کریں اور مسجد اقصیٰ کی تاریخی صورت حال کو جوں کا توں رہنے دیں۔ انہوں نے فلسطینی اور اسرائیلی حکام سے اپیل کی کہ وہ کشیدگی کو کم کرنے میں تعاون کریں۔
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ انھوں نے پہلے امن وامان کو یقینی بنانے اور نماز کی ادائیگی کی اجازت کے لیے مسلمان رہنماوں سے بات چیت کی تھی، لیکن فلسطینی نوجوانوں نے پولیس پر پتھراو کیا، جس پر کارروائی کی گئی۔
فلسطینی عینی شاہدین نے سیکورٹی خدشات کی وجہ سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ فلسطینیوں کے ایک چھوٹے سے گروپ نے پولیس پر پتھراو کیا اور طاقت کے زور پر کمپاونڈ میں داخل ہوئے جس کےبعد بڑے پیمانے پر ہنگامہ آرائی شروع ہوگئی۔
آن لائن گردش کرنے والی ایک ویڈیو میں فلسطینیوں کو پتھراو اور آگ کے گولے پھینکتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ بعد ازاں اسرائیل پولیس مسجد کے اندر داخل ہوگئی اور لوگوں کو گرفتار کرنا شروع کردیا۔ اسرائیلی سیکورٹی فورسز عام طور پر عمارت میں داخل نہیں ہوتیں لیکن جب وہ ایسا کرتی ہیں تو اسے فلسطینیوں کے ساتھ ایک بڑی کشیدگی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
فلسطینی ریڈ کریسنٹ ایمرجنسی سروس نے کہا ہے کہ انھوں نے152 افراد کاعلاج کیا ہے جن میں سے اکثر ربڑ کی گولیوں یا حواس کو معطل کردینے والے اسٹین گرینیڈ یا ساونڈ بم سے زخمی ہوئے یا لاٹھیاں لگنے سے زخمی ہوئے۔
اسرائیلی پولیس کا کہنا ہے کہ زوردار پتھراو کے نتیجے میں ان کے تین اہلکار بھی زخمی ہوئے ہیں ، جن میں سے دو کو علاج کے لیے ہسپتال روانہ کردیا گیا ۔
اسرائیلی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ فلسطین اور حماس کے جھنڈے اٹھائےدرجنوں نقاب پوشوں نے جمعہ کو فجر سے پہلےہی مسجد کی طرف مارچ شروع کردیا تھا اور ہنگامہ آرائی کے لیے پتھر اور دیگر اشیا جمع کر لی تھیں۔ انھوں نے ٹویٹ کیا کہ ہجوم کومنتشر کرنے اور پتھروں اور دیگر اشیا کو ہٹانے کے لیے پولیس میدان میں داخل ہونے پر مجبور ہوئی تاکہ مزید تشدد کو روکا جاسکے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ انھوں نے نماز ختم ہونے کا انتظار کیا جس کے ساتھ ہجوم منتشر ہونے لگا۔ ایک بیان میں انھوں نے کہا کہ ہجوم نے یہودیوں کے مقدس مقام مغربی دیوار کی طرف پتھراو شروع کردیا تھا جس کی وجہ سے وہ کارروائی پر مجبور ہوئے۔فلسطینی الاقصیٰ میں پولیس کی کسی تعیناتی کو اشتعال انگیزی سمجھتے ہیں۔
اسرائیل کے قومی سلامتی کے وزیر عمر بارلیف نے، جو پولیس فورس کی نگرانی کرتے ہیں، کہا ہے کہ اسرائیل کو مقدس مقامات پر تشدد میں کوئی دلچسپی نہیں ہے لیکن پولیس کو شرپسند عناصر کا سامنا کرنے پر مجبور کیا گیا جنھوں نے ان پر پتھروں اور دھاتی سلاخوں سے حملے کیے۔ انھوں نے کہا کہ اسرائیل یہودیوں اور مسلمانوں کو عبادات کی یکساں آزادی دیتا ہے۔
حالیہ ہفتوں کے دوران فلسطینیوں کے حملوں کے بعد جس میں اسرائیل کے اندر چودہ افراد ہلاک ہوئے کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے میں گرفتاریوں اور فوجی کارروائیوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس کے بعد فلسطینیوں کےساتھ جھڑپیں ہوتی رہی ہیں۔
فلسطینی وزارت صحت نے کہا ہے کہ ایک سترہ سالہ نوجوان جمعہ کی صبح مقبوضہ مغربی کنارے کے علاقے جنین میں اسرائیلی فوج کے ساتھ ایک جھڑپ میں زخمی ہونے کے بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق تشدد کی حالیہ لہر کے دوران کم از کم25 فلسطینی ہلاک ہوچکے ہیں ۔ جن میں ایک غیر مسلح خاتون اور ایک وکیل شامل ہے۔گزشتہ برس ماہ رمضان میں یروشلم میں ہفتوں جاری رہنے والے مظاہروں اور جھڑپوں کے دوران غزہ کی پٹی پر حکمراں اسلامی عسکریت پسند گروپ حماس کے ساتھ گیارہ روز تک جنگ جاری رہی تھی۔
اسرائیل نے رمضان سے پہلے کشیدگی کم کرنے کی کوشش کی اور کئی اقدامات اٹھائے لیکن حملوں اور فوجی چھاپوں کی وجہ سے بدامنی کا نیا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔