معاون وزیر داخلہ برائے سیکورٹی، جنرل خوشحال سعادت نے کہا ہے کہ ’’بدقسمتی سے اُن کے پیش رو، اکرم سمیع اپنا عہدہ چھوڑنے اور نئی تعیناتی کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہیں‘‘۔ اُنھوں نے مبارز کو سفر میں سہولت فراہم کرنے کے لیے خصوصی افواج کا دستہ تعینات کرنے کا دفاع کیا۔
شمالی افغانستان میں صوبائی پولیس سربراہ کی معطلی کے معاملے پر احتجاج نے جمعرات کو مسلح جھڑپوں کا رخ اختیار کر لیا، جس میں اُن کے ہمدرد اور قومی سیکورٹی افواج آپس میں الجھ پڑے۔ پہلے ہی سے انتشار کی شکار افغان حکومت کے لیے یہ ایک اور چیلنج ہے۔
بحران کا آغاز بدھ کی شام اُس وقت ہوا جب صدر اشرف غنی نے عبدالرقیب مبارز کو صوبہ ٴبلخ کا نیا پولیس سربراہ مقرر کرتے ہوئے، وہاں کی بگڑتی ہوئی سلامتی صورت حال کا ذکر کیا۔
لیکن، صدر کے فرمان کی عدولی کرتے ہوئے، معزول پولیس سربراہ، اکرم سمیع نے احکامات ماننے سے انکار کیا؛ اور اُن کے وفادار اُن کے حق میں اٹھ کھڑے ہوئے اور صوبائی دارالحکومت مزار شریف میں مورچے سنبھال لیے۔
شہر کا کنٹرول سنبھالنے کے لیےجمعرات کے روز نئے صوبائی پولیس سربراہ، خصوصی سیکورٹی فورسز کے حصار میں شہر میں داخل ہوئے، جب فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔
مزار شریف کے مکینوں نے بتایا ہے کہ دونوں فریق ’’وقفے وقفے سے ہونے والی جھڑپوں‘‘ میں ہلکے اور بھاری دہانے والے اسلحے کا استعمال کر رہے ہیں۔ شہر کے اسپتال کے ایک اہلکار نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ جھڑپوں میں کم از کم سات افراد زخمی ہوئے، جن میں پانچ شہری شامل ہیں۔
معاون وزیر داخلہ برائے سیکورٹی، جنرل خوشحال سعادت نے کہا ہے کہ ’’بدقسمتی سے اُن کے پیش رو، اکرم سمیع اپنا عہدہ چھوڑنے اور نئی تعیناتی کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہیں‘‘۔ اُنھوں نے مبارز کو سفر میں سہولت فراہم کرنے کے لیے خصوصی افواج کا دستہ تعینات کرنے کا دفاع کیا۔
صوبائی حکومت کے ترجمان نے جمعرات کی شام گئے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ خصوصی افواج نے پولیس کے صوبائی صدر دفتر کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ فوری طور پر یہ بات نہیں معلوم ہوسکی آیا مزار شریف کی مجموعی صورت حال قابو میں آچکی ہے۔
اقوام متحدہ کے اعانتی مشن برائے افغانستان (یو این اے ایم اے)نے تناؤ میں فوری کمی لانے کا مطالبہ کیا ہے۔
مشن نے کہا ہے کہ ’’ادارے نے مزار شریف میں شدت اختیار کرتے ہوئے تناؤ پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ مشن نے تمام فریق پر زور دیا ہے کہ فوری طور پر کشیدگی میں کمی لائی جائے، موجودہ نااتفاقی کو دور کرنے کے لیے تشدد کی راہ اختیار کیے بغیر صورت حال کا حل تلاش کیا جائے، اور شہر کے باسیوں کے تحفظ اور سلامتی کو اولیت دی جائے‘‘۔
امریکہ نے، جو افغان سیکورٹی فورسز کو رقوم اور تربیت فراہم کرتا ہے، مزار شریف کے مضافاتی علاقوں میں آپسی پنجہ آزمائی کی صورت حال کو ’’ناقابل تسلیم‘‘ قرار دیتے ہوئے، اِس کی مذمت کی ہے۔
کابل میں تعینات امریکی سفیر، جان باس نے ایک ٹوئیٹ میں کہا ہے کہ ’’ہم فوج اور پولیس فورسز کے قائدین پر زور دیتے ہیں کہ وہ ہتھیار استعمال نہ کریں، جب کہ اس تنازعے میں ملوث دونوں فریق سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنماؤں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ افغان عوام کو اولیت دی جائے‘‘۔
باس نے متنبہ کیا کہ ’’افغان سیکورٹی فورسز کا کام افغان عوام کو تحفظ فراہم کرنا ہے، نہ کہ سیاسی تنازعات میں ایک دوسرے کے ساتھ الجھنے کے لیے۔۔۔ تشدد کا محض ایک ہی فریق کو فائدہ ہوگا، اور وہ ہیں طالبان‘‘۔
صدر غنی کو گذشتہ برس بھی اسی نوعیت کے بحران کا سامنا تھا جب اُنھوں نے بلخ کے گورنر، عطا محمد نور کو عہدے سے ہٹایا تھا جب کہ طاقت ور علاقائی سیاسی شخص نے عہدہ چھوڑنے سے انکار کیا تھا۔ کئی ماہ تک جاری رہنے والے بحران کا خاتمہ تب ہوا تھا جب غنی نے سمیع کو بلخ کا پولیس سربراہ مقرر کیا، جو نور کی جانب سے عہدہ چھوڑنے کا ایک اہم مطالبہ تھا۔