صاف پانی اور صابن کا استعمال جہاں صحت اور صفائی کے لیےضروری ہے وہیں ایک سائنسی تجزئیے میں پہلی باراس حقیقت کا انکشاف کیا گیا ہے کہ بچوں کو صاف پانی اور صابن مہیا کرنے سے نہ صرف ان کی نشوونما بہتر ہوتی ہے بلکہ ان کے قد میں بھی اضافہ ہوتا ہے ۔
برطانوی سائنسدانوں نے دنیا بھرسے جمع کردہ اعدادوشمار کے جائزے کے نتیجے میں ایسے شواہد پیش کئے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ ، پینے کے صاف پانی اور صفائی کا خیال رکھنے سے بچوں کے قد میں .5 یا آدھ سینٹی میٹر کا اضافہ ہوا۔
حال ہی میں' لندن اسکول آف ہائی جین اینڈ ٹروپیکل میڈیسن ' اور بین الاقوامی فلاحی ادارہ 'واٹر ایڈ' کے زیر انتطام کم آمدنی اور پسماندہ ممالک میں کی جانے والی تحقیق کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے ۔ اس تحقیق میں چودہ ممالک شامل تھے جن میں پاکستان ،بنگلہ دیش، نیپال، نائجیریا، ایتھوپیا اور جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والےتقریباً دس ہزار بچوں کا معائنہ کیا گیا ۔
سائنسی ماہرین کےمطابق، ایسے گھرانے، جہاں پانچ سال سے کم عمر بچوں کو پینے کا صاف پانی اور صابن سے ہاتھ دھونے کی سہولت میسر تھی ان کے قد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا جبکہ، ناقص صفائی کا انتطام رکھنے والے گھرانوں میں بچوں میں اسہال اورپیٹ کے کیڑوں کی بیماری کے باعث غذائیت کی کمی اورکمزور نشوونما کے ساتھ قد بڑھنے کی رفتار بھی سست پائی گئی ۔
تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر ایلن ڈینگور کا کہنا تھا کہ تحقیق کا نتیجہ بچوں میں غذائیت کی کمی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک اہم پیش رفت ثابت ہو سکتا ہے۔ ’’صاف پانی کی فراہمی اور صحت وصفائی کا انتطام بچوں میں ڈائریا یا دست کی بیماری سے ہونے والی اموات کو روکنے کے لیے موثرطریقہ ثابت ہو سکتا ہے جو دنیا بھر میں بچوں کی ہلاکتوں کا تیسرا بڑا سبب ہے تو دوسری طرف صاف پانی اورصابن کی فراہمی بچوں کی اچھی نشوونما کے لیے بھی ضروری ہے ۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ بچوں میں ڈائریا کا مرض پھیلنے کا اصل سبب پینے کا گندا پانی ہے۔ ’’بار بار ہونے والی دستوں کی بیماری سے بچے جسمانی غذائیت سے محروم ہوتے چلےجاتےجن کے اثرات طویل مدتی ہوتے ہیں جس سے نہ صرف ان کی نشونما متاثر ہوتی ہے بلکہ قد برھنے کی رفتار بھی سست پڑ جاتی ہے۔‘‘
تحقیق سے منسلک ایک اور محقق اییل ویلمین نے کہا کہ تجزیئے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ صاف پانی، صفائی اور غذائیت کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے۔
ایک اندازے کے مطابق کمزور نشونما اور غذائیت کی کمی کے باعث دنیا میں ہر سال 31 لاکھ بچے موت کی نیند سو جاتے ہیں جن میں سے نصف تعداد ان بچوں کی ہے جن کی عمریں پانچ برس سے کم ہوتی ہیں۔