دنیا کی 85 فی صد آبادی موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہو رہی ہے۔ یہ بات ہزاروں سائنسی تحقیقاتی مقالوں کی ایک تجزیاتی تحقیق کے بعد سامنے آئی ہے۔
محققین کی ایک ٹیم نے مشین لرننگ کے ذریعے 1951 سے 2018 تک کے قریب ایک لاکھ تحقیقی مقالوں کے تجزیے سے یہ اخذ کیا ہے کہ دنیا کے مختلف قدرتی نظاموں کو کس طرح عالمی موسمیاتی تبدیلی متاثر کر رہی ہے۔
نیچر کلائمٹ چینج رسالے میں چھپنے والی اس تحقیق کے مصنف میکس کلیگھان نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے پاس غیر معمولی تعداد میں ثبوت موجود ہیں کہ عالمی موسمیاتی تبدیلی دنیا کے تمام براعظموں اور قدرتی نظاموں کو متاثر کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس امر کے بڑی تعداد میں ثبوت موجود ہیں کہ یہ تبدیلی کس طرح دنیا بھر میں محسوس کی جا رہی ہے۔
محققین نے کمپیوٹر پروگرامنگ کے ذریعے دنیا بھر میں ایسے مقالوں کو تجزیہ کیا جن میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق تحقیق کی گئی ہے۔ ان میں ایسے مقالے بھی تھے جو بڑی تعداد میں تتلیوں کی ہجرت پر لکھے گئے اور ایسے بھی جو شدید گرمی کی وجہ سے بڑھتی اموات پر تحقیق پر مبنی تھے۔
اس تحقیق میں ان اثرات کا عالمی موسمیاتی تبدیلی سے براہ راست تعلق بھی ثبوتوں کے ذریعے قائم کیا گیا۔
یہ تحقیق میکس کلیگھان اور ان کی ٹیم نے برلن میں قائم مرکاتر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور کلائمٹ انالیٹکس کی مدد سے مکمل کی۔
محققین کی ٹیم نے اپنی تحقیق میں دیکھا کہ دنیا بھر کے کن علاقوں میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات نمایاں تھے اور ان علاقوں میں موسم کی تبدیلی کی وجہ سے درجہ حرارت کی شدت میں کس قدر اضافہ ہوا۔
میکس کلیگھان کے مطابق ان علاقوں میں دیکھا گیا کہ درجہ حرارت اور موسم قدرتی لحاظ سے ہٹ کر کتنا گرم یا سرد، بارشوں میں کس قدر اضافہ یا خشکی کی صورت حال تھی۔
انہوں نے کہا کہ ان کی تحقیق میں یہ دیکھا گیا کہ موسمیاتی تبدیلی کے ماڈلز سے ان علاقوں کا درجہ حرارت اور موسم کس قدر مطابقت رکھتا تھا۔
تحقیق کے مصنف کے مطابق ان کی تحقیق میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ دنیا بھر کے 80 فیصد علاقے، جہاں دنیا بھر کی 85 فیصد آبادی مقیم ہے وہاں ایسی تحقیقات سامنے آئی ہیں جن میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات ریکارڈ کئے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کی تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک پر اس نوعیت کے زیادہ تحقیقی مقالے لکھے گئے جب کہ غریب ممالک میں موسمیاتی اثرات سے متعلق تحقیقی مقالوں کی تعداد بہت کم تھی۔
انہوں نے کہا کہ مثال کے طور پر افریقہ میں بارشوں میں کمی کو ہم موسمیاتی تبدیلی سے منسلک کر سکتے ہیں، لیکن اس سلسلے میں ان اثرات کو ریکارڈ کرنے کے بہت کم تحقیق مقالے میسر ہیں۔ بقول ان کے، یہ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ایسا براعظم ہے جس کے بارے میں بہت کم معلومات موجود ہیں۔