عالمی رہنماؤں نے گلاسگو میں ماحولیاتی کانفرنس کے اختتام پر جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے کا خیر مقدم کیا ہے جس میں موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششیں تیز کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔
دو ہفتے تک جاری رہنے والی سی او پی 26 کانفرنس کے آخری روز ہفتے کی شب شریک ممالک کی جانب سے مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس پر 197 ممالک کے مندوبین کے دستخط ہیں۔
وائس آف امریکہ کے لیے ہنری رج ویل کی رپورٹ کے مطابق اعلامیے میں ممالک نے اتفاق کیا کہ دنیا کو گلوبل وارمنگ کے اثرات سے بچانے کے لیے اوسط درجۂ حرارت ایک اعشاریہ پانچ ڈگری سیلسیس تک رکھنے کے لیے ہنگامی اقدامات کیے جائیں گے۔ یہ اتفاقِ رائے 2015 میں پیرس معاہدے میں بھی سامنے آیا تھا۔
پیش رفت
مشترکہ اعلامیہ ہفتے کی شب مقامی وقت کے مطابق نو بجے سامنے آیا جب کہ شیڈول کے تحت یہ اعلامیہ جمعے کی شام چھ بجے جاری کیا جانا تھا۔
سی او پی کانفرنس کے صدر الوک شرما نے مندوبین کو بتایا کہ عالمی درجۂ حرارت ڈیڑھ ڈگری سیلسیس رکھنے پر اتفاق حقیقی پیش رفت ہے جسے ہم سب نے مل کر ممکن بنایا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ان اہداف کے حصول اور عمل درآمد کے لیے ہمیں آئندہ 10 برسوں کے دوران اپنی کوششیں جاری رکھنا ہوں گی۔
کوئلے پر انحصار کم کرنے پر اختلافات
کانفرنس کے دوران بھارت اور چین نے ماحول کے لیے نقصان دہ کوئلے اور ایندھن پر انحصار بتدریج کم کرنے پر اعتراض اُٹھایا جس پر کانفرنس کے صدر نالاں دکھائی دیے۔
خیال رہے کہ اس سے قبل دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کی بڑی وجہ کوئلے اور ایندھن پر انحصار بتدریج ختم کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
بھارت، چین اور جنوبی افریقہ نے یہ اعتراض اُٹھایا تھا کہ کوئلے اور ایندھن پر مرحلہ وار انحصار ختم کرنا غیر منصفانہ ہے۔ خیال رہے کہ بھارت اپنی بجلی کی ضروریات کا 70 فی صد کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں سے پورا کرتا ہے۔
بھارت کے وزیرِ توانائی بھوپیندر جادھو کا کہنا تھا کہ ترقی پذیر ممالک کوئلے اور ایندھن پر انحصار ختم کرنے کا وعدہ کیسے کر سکتے ہیں جب کہ اُنہیں اپنے ممالک میں غربت کے خاتمے اور دیگر ترقیاتی منصوبوں کے لیے ابھی بھی بہت کچھ کرنا ہے۔
کن معاملات پر اتفاق رائے ہوا؟
مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ شریک ممالک نے یہ اتفاق کیا ہے کہ وہ عالمی درجۂ حرارت صنعتی انقلاب سے قبل کے درجۂ حرارت ڈیڑھ ڈگری سیلسیس سے آگے نہیں بڑھنے دیں گے۔
معاہدے کے تحت ممالک اگلے برس تک ماحول دشمن گیسز کا اخراج کم کرنے کے لیے آئندہ برس نیا منصوبہ پیش کریں گے۔
معاہدے کے تحت ممالک نے اتفاق کیا ہے کہ وہ کوئلے اور ماحول دشمن ایندھن پر انحصار مرحلہ وار ختم کرنے کے بجائے 'فیز ڈاؤن' پالیسی یعنی کوئلے پر انحصار کو کم سے کم استعمال کرنے پر عمل کریں گے جب کہ اس ضمن میں صنعتوں کو دی جانے والی سبسڈیز بھی بتدریج کم کی جائیں گی۔
امیر ممالک نے اتفاق کیا کہ وہ ماحولیاتی تبدیلیوں کا شکار ہونے والے غریب ممالک کی امداد دگنی کر دیں گے اور 2025 تک اپنی معیشتوں کو کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گرین ہاؤس گیسز سے پاک کرنے پر کام تیز کریں گے۔
کانفرنس میں اتفاق کیا گیا کہ جنگلات کے تحفظ، توانائی کے قابلِ تجدید ذرائع کے حصول اور دیگر ماحول دوست سرگرمیوں کے لیے اربوں ڈالرز خرچ کیے جائیں گے۔
سمٹ کے دوران 100 کے لگ بھگ ممالک نے یقین دہانی کرائی کہ میتھین کا اخراج 2030 میں 2020 کے مقابلے میں 30 فی صد کم کیا جائے گا۔
عالمی ردِعمل
مشترکہ اعلامیے پر دنیا کے مختلف عالمی رہنماؤں کی جانب سے ردِعمل سامنے آ رہا ہے۔
برطانوی وزیرِ اعظم بورس جانسن نے مشترکہ اعلامیے پر شریک ممالک کی تعریف کی۔
ان کا کہنا تھا کہ بلاشبہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ہمیں ایک طویل سفر طے کرنا ہے لیکن یہ معاہدہ اس کی جانب ایک اہم پیش رفت ہے۔
سوئیڈن سے تعلق رکھنے والی ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ نے معاہدے کو مسترد کرتے ہوئے ٹوئٹ کی کہ سی او پی 26 کا اختتام ہو چکا ہے، لیکن اصل کام ان ہالز سے باہر جاری ہے اور ہم کبھی ہار نہیں مانیں گے۔
امریکہ کا بھی خیر مقدم
امریکی صدر کے ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق خصوصی ایلچی جان کیری نے بھی معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ "مجھے یقین ہے کہ گلاسگو میں طے پانے والے معاہدے کے نتیجے میں ہم آئندہ ایک دہائی کے دوران موسمبائی تبدیلیوں کا بہتر طور پر مل کر مقابلہ کر سکیں گے۔"
ہفتے کو نیوز کانفرنس کرتے ہوئے جان کیری کا کہنا تھا کہ گزشتہ دو ہفتوں سے جاری اس کانفرنس کے باعث دنیا کو درپیش ماحولیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ممالک ایک دوسرے کے قریب آئے ہیں اور صاف آب و ہوا، محفوظ پانی اور ایک صحت مند زمین کی بقا کے لیے سب پرعزم ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ ایک وقت تھا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے لفظ 'کوئلہ' زیرِ غور بھی نہیں آتا تھا، لیکن حتمی معاہدے میں نہ صرف یہ اعلامیے میں شامل ہے بلکہ اسے 'فیز ڈاؤن' کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اس معاہدے پر محتاط ردِعمل دیا ہے۔
ایک بیان میں اُن کا کہنا تھا کہ معاہدے کا متن ایک سمجھوتے پر مبنی ہے جو دنیا میں مفادات، حالات، تضادات اور سیاسی عزائم کا عکاس ہے۔
اُن کے بقول اس میں کوئی شک نہیں کہ ممالک نے اہم اقدامات اُٹھائے ہیں، لیکن بدقسمی سے اجتماعی سیاسی عزائم کچھ گہرے تضادات کو ختم کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔
انتونیو گوتریس کا کہنا تھا کہ جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ درجۂ حرارت ڈیڑھ ڈگری سیلسیس تک رکھنے کے لیے اپنے اقدامات تیز کرنا ہوں گے۔ کیوں کہ ہمارا سیارہ ایک نازک دھاگے پر لٹکا ہوا ہے اور ہم ماحولیاتی تباہی کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں۔
سی او پی کانفرنس کا اغاز 31 اکتوبر کو ہوا تھا اس کے ابتدائی سیشنز میں امریکہ کے صدر جو بائیڈن سمیت دیگر عالمی رہنما بھی شریک ہوئے تھے جب کہ 13 نومبر تک جاری رہنے والی کانفرنس کے دوران دنیا کے کئی ممالک کے نمائندہ وفود شریک ہوئے تھے۔
اس خبر کے لیے بعض معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' اور 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لی گئی ہیں۔