رسائی کے لنکس

ہلری کلنٹن کے دورہ بلقان سے توقعات


ہلری کلنٹن کے دورہ بلقان سے توقعات
ہلری کلنٹن کے دورہ بلقان سے توقعات

امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن اپنا منصب سنبھالنے کے بعد پہلے مرتبہ مشرقی یورپ کے علاقے بلقان کا دورہ کر رہی ہیں۔ یہ علاقہ امریکی خارجہ پالیسی کا ایک اہم حصہ رہا ہے ۔ وزیر خارجہ اپنے اس دورے میں بوسنیا کی صورتحال بہتر بنانے اور سربیا اور کوسوو کے درمیان موجود مسائل کے حل کی کوششوں کو آگے بڑھانے کے ساتھ ساتھ عام شہریوں سے بھی سے ملاقاتیں کریں گی۔

امریکی وزیر خارجہ ایک ایسے وقت میں یہ دورہ کر رہی ہیں جب سربیا اور کوسوو اپنے درمیان پائے جانے والے مسائل کے حل کے لیے بات چیت پر بظاہر تیار نظر آتے ہیں۔ سربیا نے ابھی تک کوسوو کی آزادی کو تسلیم نہیں کیا ہے جو 2008 ءمیں آزاد ہوا تھا۔

وزیر خارجہ ہلری کلنٹن کا کہنا ہے کہ امریکہ اور یورپی یونین ان ممالک کی مدد کرنے اور انھیں ایک معاہدے پر راضی کرنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن یہ ان ممالک کے سربراہوں اور عوام پر منحصر ہے کہ وہ اپنے مستقبل کے لیے کیا فیصلہ کرتے ہیں۔

جان ہاپکنز یونیورسٹی کے سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز سے وابستہ کرٹ ووکر نیٹو کے لیے امریکہ کے سابق سفیر رہ چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فوری طور پر اس دورے کے نتائج نظر آنے میں وقت لگے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے امید ہے کہ ہم امریکہ اور یورپ کے ساتھ ساتھ کوسوو اور سربیا کے سربراہوں کی طرف سے بھی ان مسائل کے حل ، معیشت کی بہتری اور عوام کی فلاح کے لیے ذمہ دارانہ اقدام دیکھیں گے۔

کرٹ ووکر کا کہنا تھا کہ انھیں امید ہے کہ سیکرٹری کلنٹن کا یہ دورہ خطے کے مسائل کے حل کے لیے کی جانے والی کوششوں کو تقویت دے گا۔

فرینک وائسنر 2007 ءمیں سربیا اور کوسوو کے درمیان ہونے والی بات چیت کے دوران امریکی نمائندے تھے، ان کا کہنا ہے کہ یہ دورہ بہت اہم ہےاور سیکرٹری کلنٹن کو کوسوو کی سیاسی جماعتوں سے سربیا کے حوالے سے بات کرنی چاہیے، خاص طور پر ان حالات میں جب کہ کوسوو کے صدر استعفی دے چکے ہیں اور اگلے سال کے شروع میں وہاں انتخابات ہونے والے ہیں۔

فرینک وائسنرنے کہا کہ سیکرٹری کلنٹن کے لیے دوسرا اہم مسئلہ کوسوو کی آزادی کو تسلیم کروانے کا ہے۔ 70 ممالک اسے تسلیم کرچکے ہیں اور دنیا کی نظر میں اس کی قانونی حیثیت کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔

بین الاقوامی عدالت نے بھی اس سال جولائی میں یہ فیصلہ د یا تھا کہ دو سال پہلے کوسوو کی طرف سے کیا جانے والا آزادی کا اعلان غیر قانونی نہیں تھا۔ سربیا نے اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں لانے کی بات کی تھی۔لیکن بعد میں سربیا نے یہ ارادہ ترک کر دیا تھا۔ جس سے دونوں فریقوں کے درمیان بات چیت کا ایک راستہ پیدا ہوا۔

کرٹ ووکر کا کہنا ہے کہ پچھلے کچھ برسوں میں سربیا کا کردار تعمیری رہا ہے۔جبکہ ایمبیسیڈر وائسنر کہتے ہیں کہ سربیا کوسوو کو شاید ایک طویل عرصے تک تسلیم نہ کرے ۔لیکن دونوں ملکوں کی طرف سے مشترکہ معاملات پر بات چیت خطے کے لیے بہت ضروری ہے۔

فرینک وائسنرکہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کا مقصد یہی ہونا چاہیے کہ وہ ساتھ چلیں اور امریکی کردار بھی یہ ہونا چاہیے کہ دونوں ملکوں کو ساتھ لے کر چلا جائے۔

سٹیون مائرز واشنگٹن میں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میرا یہ خیال نہیں ہے کہ یہ بات چیت جلد کسی نتیجے پر پہنچے گی یا اس سمت بڑھے گی جہاں امریکہ چاہتا ہے۔

سیکرٹری کلنٹن اس دورے میں بوسنیا بھی جائیں گی جہاں 3 اکتوبر کے انتخابات میں تین صدارتی امیدوار سامنے آنے کے بعد ملک کے سیاسی حالات ابتری کا شکار ہیں۔

کرٹ ووکرکہتے ہیں کہ ہمیں بوسنیا میں ترقی کے لیے ایک نئی قوت کی ضرورت ہے۔ ہمیں عام لوگوں کی ضرورت ہے جو سامنے آئیں اور نسلی اعتبار سے بٹی ہوئی قوم کے درمیان ہم آہنگی پیدا کریں۔ کمزور اداروں کو بہتر بنانے کے لیے کام کریں۔ امید ہے کہ یورپی یونین اور ہلری کلنٹن کا دورہ حالات میں بہتری لائے گا۔

لیکن پروفیسر سٹیون مائرز اس بارے میں مخمصے کا شکار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ پچھلے 15 برسوں سے مفاہمت کی کوشش کر رہا ہے لیکن بوسنیا کے حالات کو دیکھتے ہوئے یہ بہت مشکل نظر آرہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکہ اس بات پر زور دیتا رہا ہے کہ بوسنیا کو ایک متحد قوم کے طور پر کھڑا ہونا چاہیے،جو کہ کبھی متحد نہیں رہی ہے۔ حقیقت تو ہے کہ ایسا ہوتا نظر بھی نہیں آرہا۔

سیکرٹری کلنٹن اپنے دورے میں پہلے بوسنیا ہرزیگوینا اور پھر سربیا اور کوسوو جائیں گی۔ اس کے علاوہ وہ بلجیم کے دارلحکومت برسلز بھی جائیں گی جہاں وہ نیٹو کے اجلاس میں شرکت کریں گی۔

XS
SM
MD
LG