کراچی —
کراچی سمیت ملک کے متعددشہروں میں اتوار کی رات 12بجے سے سی این جی کی ہڑتال جاری ہے جس کے سبب شہر بھر کے گیس اسٹیشنز پیر کو بھی سارا دن بند رہے۔ بیشتر لوگوں کو بروقت ہڑتال سے متعلق علم نہیں ہوسکا یا جو کسی سبب اتوار تک گیس نہیں بھرواسکے تھے انہیں پیر کی صبح سخت دشوارای کا سامنا کرنا پڑا۔
شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ بھی آج معمول سے کم رہی جبکہ منگل کو ٹرانسپورٹ کی صورتحال مزید خراب ہونے کی اطلاعات ہیں۔ سی این جی اسٹیشن مالکان کا کہنا ہے کہ وہ موجودہ کم قیمتوں پر کاروبار نہیں کرسکتے اس لئے غیرمعینہ مدت تک ہڑتال جاری رہے گی۔
اس ہڑتال کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ عمومی طور پر دنیا بھر میں قیمتوں میں اضافے کے خلاف ہڑتال کی جاتی ہے لیکن پاکستان میں اس کے برعکس گیس کی قیمتوں میں کمی کے خلاف ہڑتال کی جارہی ہے۔
کراچی کے علاوہ سکھر اور لاڑکانہ ڈویژنز کے 100 اور میرپور خاص ڈویژن کے ایک درجن سے زائد سی این جی اسٹیشنز بند ہیں جبکہ حیدرآباد ،بدین ،نوابشاہ ،ٹھٹھہ ،گھوٹکی اور پنجاب کے شہروں ملتان، بہاول پور ریجن، فیصل آباد ، سرگودھا، ایبٹ آباد، سوات ، مالاکنڈایجنسی، مانسہرہ، نوشہرہ ، بلوچستان کے علاقوں نصیر آباد، جعفرآباد، سبی اور دیگر شہروں میں بھی یہی صورتحال ہے۔
اسٹیشنز مالکان کا کہنا ہے کہ جب تک نئی قیمتیں مقرر نہیں کی جاتیں اسٹیشنزاسی طرح بند رہیں گے۔گیس کی بندش کے باعث پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں من مانا اضافہ ہوگیا ہے ۔
پچھلے مہینے عدالت عظمیٰ کی جانب سے سی این جی کی قیمتوں میں کمی کی ہدایات جاری کی گئی تھیں جس کے بعد قیمتوں میں تقریباً31روپے کم کردیئے گئے تھے۔ سی این جی ایسویسی ایشن کا موقف ہے کہ موجودہ قیمتوں پر کاروبار کو جاری رکھنا ممکن نہیں رہا لہٰذا حکومت اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔
بے نتیجہ مذاکرات ، صوررتحال مزید گمبھیر
ادھر سی این جی ایسو سی ایشن اور اوگرا کے درمیان آج ہونیو الے مذاکرات بھی بے نتیجہ رہے۔ دونوں فریق ایک قابل قبول قیمت طے کرنے کے معاملے پر اتفاقِ رائے کے لئے مذاکرات کررہے تھے تاہم کوشش کے باوجود دونوں کے درمیان کسی ایک قیمت پر اتفاق نہیں ہوسکاجس کے بعد یہ کہنا مشکل ہوگیا ہے کہ ہڑتال کب ختم ہوگی۔
مذاکرات کے بعد میڈیا سے بات چیت میں ایسو سی ایشن کے رہنما سمیع خان نے کہا کہ اوگرا نے ان کا موقف سنا ضرور ہے لیکن اس کی جانب سے کسی قسم کی کوئی یقین دہانی نہیں کرائی گئی۔ سمیع خان کا کہنا تھا کہ کسی بھی سی این جی سٹیشن کی بندش میں ایسو سی ایشن کا کوئی کردار نہیں ہے۔ مارجن یا منافع ختم ہونے پر اسٹیشنز اپنا بل ادا کرنے کے قابل نہیں رہے۔
سپریم کورٹ کے احکامات
ملک کی سب سے بڑی عدالت نے 25اکتوبر کو سی این جی کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف درخواستوں پر30 روپے 38 پیسے فی کلو سستی کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس حکم کے بعد اوگرا نے سی این جی قیمتوں میں کمی کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا جس کے تحت ریجن ون یعنی پوٹوہار، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں سی این جی تیس روپے نوے پیسے کی کمی کے بعد ساٹھ روپے چونسٹھ پیسے ہو گئی۔ ریجن ٹو یعنی پنجاب اور سندھ میں یہ تیس روپے اڑتیس پیسے کم ہوکر چون روپے سولہ پیسے ہوگئی ۔
قیمتوں میں کمی کے ساتھ ساتھ حکومت نے عدالت کے حکم پر قیمتوں کا ہفتہ وار تعین بھی روک دیا ہے۔ عدالت نے آپریٹنگ کاسٹ سے متعلق حکومت اور سی این جی کے معا ہدے کو معطل کر دیا تھا جس کے تحت آپریٹنگ کاسٹ بیس روپے فی کلو گرام طے تھی۔
اس کیس کی سماعت سپریم کورٹ کا دو رکنی بنچ کر رہا ہے جس میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور جسٹس جواد ایس خواجہ شامل ہیں۔سماعت کے دوران عدالت نے سی این جی ایسوسی ایشن کی جانب سے اس مقدمے میں فریق بننے کی درخواست بھی منظور کر لی تھی۔
سماعت کے دوران سپریم کورٹ کو بتایا گیا تھا کہ سی این جی کی فی کلو لاگت 17سے 20 روپے ہے جبکہ صارفین کو 90 روپے کلو تک فروخت کی جاتی رہی ہے۔حکومتی اداروں نے گیس کی قیمت بھی پٹرولیم مصنوعات سے منسلک کردی تھی جس پر عدالت نے کہا کہ اس کا کوئی جواز نہیں کیونکہ گیس مقامی پیداوار ہے جبکہ پٹرول درآمد کیاجاتا ہے۔
اوگرا نے سی این جی کی قیمتوں سے متعلق جو جواب عدالت عظمٰی میں جمع کرا یا ہے اس میں چیئرمین اوگرا سعید احمد نے سی این جی کی قیمت سے متعلق آڈٹ رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ آڈٹ کمپنی نے ساڑھے تین سو کے بجائے صرف دس سی این جی اسٹیشنز کا آڈٹ کیا۔ انہوں نے کہا کہ آڈٹ رپورٹ میں ریجن ٹو کیلئے قیمت چوراسی روپے فی کلو مقرر کرنے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ اوگرا کے مطابق سی این جی کی زیادہ سے زیادہ قیمت چوہتر روپے ہونی چاہیے۔ انہوں نے بتایا کہ اوگرا نے ریجن ون میں سی این جی کی قیمت چونسٹھ روپے بہتر پیسے مقرر کرنے کی سفارش کی ہے۔
اوگرا نے نئے فارمولے کے تحت تجویز کیاہے کہ گیس اسٹیشن چلانے کے اخراجات ختم کر کے پیداواری اخراجات کی مد میں 5 روپے 75پیسے وصول کرنے کی اجازت دی جائے۔ اوگرا نے اپنے نئے فارمولے میں سی این جی اسٹیشن کے مالکان کے منافع کو بھی گیارہ روپے بیس پیسے سے کم کر کے دو روپے پچانوے پیسے کرنے کی تجویز دی تھی۔
سی این جی ایسوسی ایشن کا موقف ہے کہ اس کو حکومت کی طرف سے 47 روپے فی کلو سی این جی فراہم کی جاتی ہے جبکہ ان کو سات سے آٹھ روپے فی کلو کے حساب سے اوپری اخراجات کرناہوتے ہیں جو موجودہ قیمت میں نکالنا ممکن نہیں۔
سی این جی ایسوسی ایشن کے صدر غیاث پراچہ کے مطابق سپریم کورٹ کی جانب سے سی این جی کی فی کلو قیمت میں 20روپے کمی کے احکامات جاری کیے گئے مگر اوگرا نے اپنی طرف سے فی کلو گیس کی قیمت میں اکتیس روپے کمی کر دی۔
ملک میں سی این جی کا آغاز واستعمال
پاکستان میں کمپریسڈ نیچرل گیس یعنی سی این جی سے چلنے والی گاڑیوں کا آغاز 1992ء میں ہواتھا۔چونکہ سی این جی شروع ہی سے ماحول دوست، سستی اوربا آسانی دستیاب تھی لہذا حکومت نے اس کے استعمال کو فروغ دینے کی غرض سے عوام کو گاڑیوں میں سی این جی کٹ لگوانے اور سرمایہ داروں کو فلنگ اسٹیشن کی تنصیب کے لئے خصوصی چھوٹ دی ۔
۔۔۔لیکن سی این جی کی خوبیاں ہی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بحران کی بنیادی وجہ بن گئیں۔ وفاقی ادارہ برائے شماریات اور سی این جی ایسوسی ایشن کے مطابق ملک بھر میں سی این جی پر چلنے والی گاڑیوں کی تعداد پینتیس لاکھ ہے، جبکہ فلنگ اسٹیشن کی تعداد تین ہزار چار سو اسی کے لگ بھگ ہے۔ ملک میں سی این جی کی یومیہ پیداوار 19 سے 20 ارب مکعب فٹ ہے جبکہ کھپت اٹھائیس ارب مکعب فٹ ہے۔ گویاملک کوپہلے ہی یومیہ 8سے 9ارب مکعب فٹ گیس کی کمی کا سامنا ہے جبکہ اس کی سالانہ مانگ میں 40 فیصد اضافہ ہورہا ہے۔
شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ بھی آج معمول سے کم رہی جبکہ منگل کو ٹرانسپورٹ کی صورتحال مزید خراب ہونے کی اطلاعات ہیں۔ سی این جی اسٹیشن مالکان کا کہنا ہے کہ وہ موجودہ کم قیمتوں پر کاروبار نہیں کرسکتے اس لئے غیرمعینہ مدت تک ہڑتال جاری رہے گی۔
اس ہڑتال کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ عمومی طور پر دنیا بھر میں قیمتوں میں اضافے کے خلاف ہڑتال کی جاتی ہے لیکن پاکستان میں اس کے برعکس گیس کی قیمتوں میں کمی کے خلاف ہڑتال کی جارہی ہے۔
کراچی کے علاوہ سکھر اور لاڑکانہ ڈویژنز کے 100 اور میرپور خاص ڈویژن کے ایک درجن سے زائد سی این جی اسٹیشنز بند ہیں جبکہ حیدرآباد ،بدین ،نوابشاہ ،ٹھٹھہ ،گھوٹکی اور پنجاب کے شہروں ملتان، بہاول پور ریجن، فیصل آباد ، سرگودھا، ایبٹ آباد، سوات ، مالاکنڈایجنسی، مانسہرہ، نوشہرہ ، بلوچستان کے علاقوں نصیر آباد، جعفرآباد، سبی اور دیگر شہروں میں بھی یہی صورتحال ہے۔
اسٹیشنز مالکان کا کہنا ہے کہ جب تک نئی قیمتیں مقرر نہیں کی جاتیں اسٹیشنزاسی طرح بند رہیں گے۔گیس کی بندش کے باعث پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں من مانا اضافہ ہوگیا ہے ۔
پچھلے مہینے عدالت عظمیٰ کی جانب سے سی این جی کی قیمتوں میں کمی کی ہدایات جاری کی گئی تھیں جس کے بعد قیمتوں میں تقریباً31روپے کم کردیئے گئے تھے۔ سی این جی ایسویسی ایشن کا موقف ہے کہ موجودہ قیمتوں پر کاروبار کو جاری رکھنا ممکن نہیں رہا لہٰذا حکومت اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔
بے نتیجہ مذاکرات ، صوررتحال مزید گمبھیر
ادھر سی این جی ایسو سی ایشن اور اوگرا کے درمیان آج ہونیو الے مذاکرات بھی بے نتیجہ رہے۔ دونوں فریق ایک قابل قبول قیمت طے کرنے کے معاملے پر اتفاقِ رائے کے لئے مذاکرات کررہے تھے تاہم کوشش کے باوجود دونوں کے درمیان کسی ایک قیمت پر اتفاق نہیں ہوسکاجس کے بعد یہ کہنا مشکل ہوگیا ہے کہ ہڑتال کب ختم ہوگی۔
مذاکرات کے بعد میڈیا سے بات چیت میں ایسو سی ایشن کے رہنما سمیع خان نے کہا کہ اوگرا نے ان کا موقف سنا ضرور ہے لیکن اس کی جانب سے کسی قسم کی کوئی یقین دہانی نہیں کرائی گئی۔ سمیع خان کا کہنا تھا کہ کسی بھی سی این جی سٹیشن کی بندش میں ایسو سی ایشن کا کوئی کردار نہیں ہے۔ مارجن یا منافع ختم ہونے پر اسٹیشنز اپنا بل ادا کرنے کے قابل نہیں رہے۔
سپریم کورٹ کے احکامات
ملک کی سب سے بڑی عدالت نے 25اکتوبر کو سی این جی کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف درخواستوں پر30 روپے 38 پیسے فی کلو سستی کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس حکم کے بعد اوگرا نے سی این جی قیمتوں میں کمی کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا جس کے تحت ریجن ون یعنی پوٹوہار، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں سی این جی تیس روپے نوے پیسے کی کمی کے بعد ساٹھ روپے چونسٹھ پیسے ہو گئی۔ ریجن ٹو یعنی پنجاب اور سندھ میں یہ تیس روپے اڑتیس پیسے کم ہوکر چون روپے سولہ پیسے ہوگئی ۔
قیمتوں میں کمی کے ساتھ ساتھ حکومت نے عدالت کے حکم پر قیمتوں کا ہفتہ وار تعین بھی روک دیا ہے۔ عدالت نے آپریٹنگ کاسٹ سے متعلق حکومت اور سی این جی کے معا ہدے کو معطل کر دیا تھا جس کے تحت آپریٹنگ کاسٹ بیس روپے فی کلو گرام طے تھی۔
اس کیس کی سماعت سپریم کورٹ کا دو رکنی بنچ کر رہا ہے جس میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور جسٹس جواد ایس خواجہ شامل ہیں۔سماعت کے دوران عدالت نے سی این جی ایسوسی ایشن کی جانب سے اس مقدمے میں فریق بننے کی درخواست بھی منظور کر لی تھی۔
سماعت کے دوران سپریم کورٹ کو بتایا گیا تھا کہ سی این جی کی فی کلو لاگت 17سے 20 روپے ہے جبکہ صارفین کو 90 روپے کلو تک فروخت کی جاتی رہی ہے۔حکومتی اداروں نے گیس کی قیمت بھی پٹرولیم مصنوعات سے منسلک کردی تھی جس پر عدالت نے کہا کہ اس کا کوئی جواز نہیں کیونکہ گیس مقامی پیداوار ہے جبکہ پٹرول درآمد کیاجاتا ہے۔
اوگرا نے سی این جی کی قیمتوں سے متعلق جو جواب عدالت عظمٰی میں جمع کرا یا ہے اس میں چیئرمین اوگرا سعید احمد نے سی این جی کی قیمت سے متعلق آڈٹ رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ آڈٹ کمپنی نے ساڑھے تین سو کے بجائے صرف دس سی این جی اسٹیشنز کا آڈٹ کیا۔ انہوں نے کہا کہ آڈٹ رپورٹ میں ریجن ٹو کیلئے قیمت چوراسی روپے فی کلو مقرر کرنے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ اوگرا کے مطابق سی این جی کی زیادہ سے زیادہ قیمت چوہتر روپے ہونی چاہیے۔ انہوں نے بتایا کہ اوگرا نے ریجن ون میں سی این جی کی قیمت چونسٹھ روپے بہتر پیسے مقرر کرنے کی سفارش کی ہے۔
اوگرا نے نئے فارمولے کے تحت تجویز کیاہے کہ گیس اسٹیشن چلانے کے اخراجات ختم کر کے پیداواری اخراجات کی مد میں 5 روپے 75پیسے وصول کرنے کی اجازت دی جائے۔ اوگرا نے اپنے نئے فارمولے میں سی این جی اسٹیشن کے مالکان کے منافع کو بھی گیارہ روپے بیس پیسے سے کم کر کے دو روپے پچانوے پیسے کرنے کی تجویز دی تھی۔
سی این جی ایسوسی ایشن کا موقف ہے کہ اس کو حکومت کی طرف سے 47 روپے فی کلو سی این جی فراہم کی جاتی ہے جبکہ ان کو سات سے آٹھ روپے فی کلو کے حساب سے اوپری اخراجات کرناہوتے ہیں جو موجودہ قیمت میں نکالنا ممکن نہیں۔
سی این جی ایسوسی ایشن کے صدر غیاث پراچہ کے مطابق سپریم کورٹ کی جانب سے سی این جی کی فی کلو قیمت میں 20روپے کمی کے احکامات جاری کیے گئے مگر اوگرا نے اپنی طرف سے فی کلو گیس کی قیمت میں اکتیس روپے کمی کر دی۔
ملک میں سی این جی کا آغاز واستعمال
پاکستان میں کمپریسڈ نیچرل گیس یعنی سی این جی سے چلنے والی گاڑیوں کا آغاز 1992ء میں ہواتھا۔چونکہ سی این جی شروع ہی سے ماحول دوست، سستی اوربا آسانی دستیاب تھی لہذا حکومت نے اس کے استعمال کو فروغ دینے کی غرض سے عوام کو گاڑیوں میں سی این جی کٹ لگوانے اور سرمایہ داروں کو فلنگ اسٹیشن کی تنصیب کے لئے خصوصی چھوٹ دی ۔
۔۔۔لیکن سی این جی کی خوبیاں ہی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بحران کی بنیادی وجہ بن گئیں۔ وفاقی ادارہ برائے شماریات اور سی این جی ایسوسی ایشن کے مطابق ملک بھر میں سی این جی پر چلنے والی گاڑیوں کی تعداد پینتیس لاکھ ہے، جبکہ فلنگ اسٹیشن کی تعداد تین ہزار چار سو اسی کے لگ بھگ ہے۔ ملک میں سی این جی کی یومیہ پیداوار 19 سے 20 ارب مکعب فٹ ہے جبکہ کھپت اٹھائیس ارب مکعب فٹ ہے۔ گویاملک کوپہلے ہی یومیہ 8سے 9ارب مکعب فٹ گیس کی کمی کا سامنا ہے جبکہ اس کی سالانہ مانگ میں 40 فیصد اضافہ ہورہا ہے۔