پاکستان کی سپریم کورٹ نے لاپتا افراد کے وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کو منگل کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
کرنل (ر) انعام الرحیم کی رہائی کے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر اپیل پر پیر کو سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل انور منصور خان نے عدالت سے اِن کیمرہ سماعت کی استدعا کی۔
عدالت نے اٹارنی جنرل کی ان کیمرہ سماعت کی درخواست مسترد کر دی۔ جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کا مختصر فیصلہ آیا ہے۔ اس لیے تفصیلی فیصلہ آنے دیں۔
یاد رہے کہ کرنل (ر) انعام الرحیم لاپتا افراد کے کیسز کی پیروی کرتے رہے ہیں۔ انہیں گزشتہ ماہ نامعلوم افراد نے ان کی رہائش گاہ سے اٹھا لیا تھا۔ بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ نے ان کی رہائی کا حکم دیا تھا۔
وزارتِ دفاع کی لاہور ہائی کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں اعتراف کیا گیا تھا کہ کرنل (ر) انعام الرحیم کو 'آفیشل سیکرٹ ایکٹ' کی خلاف ورزی پر تحویل میں لیا ہے۔
مذکورہ فیصلے کے خلاف وزارتِ دفاع اور وزارتِ داخلہ کی مشترکہ درخواست پر پیر کو سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ عدالت انعام الرحیم کی رہائی کا مختصر فیصلہ معطل کر دے جس پر جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ آپ عدالت کے مختصر فیصلے پر عمل درآمد کریں۔
اٹارنی جنرل نے سر بمہر لفافے میں انعام الرحیم کی گرفتاری کے حوالے سے رپورٹ بھی عدالت میں پیش کی اور مؤقف اختیار کیا کہ کرنل (ر) انعام الرحیم کو عدالت میں پیش کر دیتے ہیں۔
عدالت نے اٹارنی جنرل کی پیش کردہ رپورٹ پر کہا کہ اس رپورٹ میں جو لکھا ہے وہ سب شائع ہو چکا ہے۔ چیزوں کو ڈراماٹائز نہ کریں۔ ہمارے سامنے کوئی ایسا مواد نہیں جو حساس نوعیت کا ہو۔
جسٹس مشیر عالم نے استفسار کیا کہ انکوائری میں اب تک آخر کیا سامنے آیا ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ قومی سلامتی کا مسئلہ ہے، عدالت نوعیت کو سمجھے۔
بینچ میں شامل جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ قومی سلامتی کا آخر ایسا کیا ایشو ہے؟
صدر سپریم کورٹ بار قلب حسن نے عدالت میں موؑقف اختیار کیا کہ انعام الرحیم نے قومی سلامتی کو کئی نقصان نہیں پہنچایا۔ اُنہیں غیر قانونی طور پر تحویل میں رکھا گیا ہے۔ ان کے اہلخانہ سے بھی ملاقات بھی نہیں کرائی جا رہی۔
جسٹس مشیر عالم نے اٹارنی جنرل کو کہا کہ کوئی حساس چیز ہے تو عدالت اُسے پبلک نہیں کرے گی جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ حساس مواد عدالت کو چیمبر میں ہی پیش کروں گا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا "کوئی مواد تو ہو جس کی بنیاد پر سماعت چیمبر میں کریں"۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ کل عدالت میں تحریری مواد پیش کر دیں گے۔
سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کو منگل کو عدالت میں پیش کیا جائے جس کے بعد سماعت کل تک کے لیے ملتوی کر دی گئی۔
'کرنل (ر) انعام الرحیم کا مبینہ اغوا'
فوج کے سابق کرنل انعام الرحیم کو 16 دسمبر کو راولپنڈی میں واقع ان کی رہائش گاہ سے لے جایا گیا تھا۔
وکیل کے مبینہ اغوا کے درج مقدمے کے مطابق ایڈووکیٹ انعام الرحیم کو نامعلوم افراد نے عسکری 14 میں موجود ان کی رہائش گاہ سے اٹھایا، جو گیریژن شہر میں خاصی محفوظ آبادی سمجھتی جاتی ہے۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ جس وقت ایڈووکیٹ انعام الرحیم سو رہے تھے نامعلوم افراد ان کی رہائش گاہ میں زبردستی داخل ہوئے اور انہیں جبراً اغوا کرتے ہوئے اہلِ خانہ کو دھمکیاں دیں۔
کرنل (ر) انعام الرحیم کے صاحبزادے حسنین انعام نے وائس اف امریکہ کو بتایا تھا کہ 16 دسمبر کی شب ساڑھے 12 بجے عسکری 14 میں واقع ان کی گھر کی گھنٹی بجی اور جب انہوں نے دروازہ کھولا تو سیاہ لباس میں ملبوس آٹھ سے دس مسلح افراد ان کے گھر میں گھس آئے۔ یہ افراد والد کو اسلحے کے زور پر زبردستی اپنے ہمراہ گاڑی میں ڈال کر لے گئے۔
حسنین کے بقول، ملزمان نے انہیں دھمکی بھی دی کہ اگر والد کی گمشدگی کو رپورٹ کیا تو اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔
کرنل انعام الرحیم کون ہیں؟
راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم لاپتا افراد اور فوجی عدالتوں سے سزائیں پانے والے افراد کی وکالت کے لیے مشہور ہیں۔
انہوں نے کچھ عرصہ پہلے پاکستان نیوی کے جہازوں پر حملہ آور ملزمان کی بھی وکالت کی تھی۔
کرنل انعام الرحیم ماضی میں فوج کے جنرل ہیڈکوارٹر پر حملے کے ملزمان کی وکالت بھی کرتے رہے ہیں۔
کرنل انعام ایڈووکیٹ نے سپریم کورٹ کے بعض جج صاحبان کے خلاف کچھ ریفرنس بھی دائر کیے ہوئے ہیں جن میں جسٹس منصور علی شاہ بھی شامل ہیں۔