پاکستان فوج کے سابق کرنل اور لاپتا افراد کے وکیل کرنل انعام الرحیم کو رہا کر دہا گیا ہے۔ کرنل انعام کو راولپنڈی میں طبی معائنہ کروانے کے بعد رہا کیا گیا جس کے بعد وہ اپنے اہل خانہ کے پاس اپنے گھر پہنچ گئے ہیں۔
وائس آف امریکہ کو دستیاب مستند معلومات کے مطابق کرنل ریٹائرڈ انعام اگرچہ اپنے گھر پہنچ چکے ہیں لیکن فی الحال وہ کسی کے ساتھ رابطے میں نہیں ہیں۔ ان کی صحت کے حوالے سے بتایا جارہا ہے کہ وہ ٹھیک ہیں اور دوران حراست ان کی صحت زیادہ خراب نہیں ہوئی۔
22 جنوری کو اٹارنی جنرل انور منصورخان نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا تھا کہ پاکستان کی وزارتِ دفاع کرنل انعام کو مشروط طور پر رہا کرنے کے لیے تیار ہے۔
کرنل (ر) انعام کی رہائی کے لیے اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ ملزم کو رہائی کے لیے پاسپورٹ جمع کرانا اور لیپ ٹاپ کا پاس ورڈ دینا ہو گا۔ تاہم ملزم کے وکیل طارق اسد نے اس شرط پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ انعام الرحیم کا لیپ ٹاپ تو اُن کے گھر پر ہی ہے تو پھر پاس ورڈ کس لیے چاہیے؟
گزشتہ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل انور منصور نے کہا تھا کہ کرنل (ر) انعام الرحیم نے آئی ایس آئی اور جوہری پروگرام سمیت حساس معلومات لیک کی ہیں۔ وہ اکیلے نہیں بلکہ پورا نیٹ ورک ہے جس کے کئی لوگ گرفتار ہو چکے ہیں، جب کہ ایک کو پھانسی بھی ہوئی ہے۔
کرنل (ریٹائرڈ) انعام الرحیم کے صاحب زادے حسنین انعام نے بھی ان کا لیپ ٹاپ گھر میں ہونے کی تصدیق کی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اٹارنی جنرل نے عدالت سے غلط بیانی کی ہے اور تمام کہانی من گھڑت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ "اگر سب کچھ ریکور کر لیا گیا تھا تو اب پاس ورڈ کس چیز کے لیے مانگ رہے ہیں؟"
طارق اسد ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ کرنل (ر) انعام کو جب اغوا کیا گیا تو قانون نافذ کرنے والے ادارے صرف ایک فائل ساتھ لے کر گئے تھے۔ طارق اسد کا کہنا ہے کہ کرنل (ر) انعام پر جاسوسی کے الزامات بے بنیاد ہیں۔
کرنل (ر) انعام الرحیم کی رہائی کے لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ کے فیصلے کے خلاف اپیل پر بدھ کو سپریم کورٹ کے جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی تھی۔
اس موقع پر اٹارنی جنرل انور منصور خان نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا تھا کہ جاسوسی کے الزام میں گرفتار ملزم بیمار ہے اور اسے بار بار اسپتال لے جانا پڑتا ہے۔ تاہم وزارتِ دفاع ملزم کو رہا کرنے پر رضا مند ہے۔ لیکن کچھ شرائط ہیں جن کے مطابق کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کے راولپنڈی اور اسلام آباد سے باہر جانے پر پابندی ہو گی۔ ملزم کو تحقیقات میں تعاون اور لیپ ٹاپ کا پاس ورڈ دینا ہو گا۔
بعد ازاں کرنل انعام الرحیم کے صاحبزادے نے ان کے وکیل کے ساتھ سپریم کورٹ میں ان کا پاسپورٹ جمع کروا دیا جس کے بعد جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب ان کا راولپنڈی کے بے نظیر بھٹو اسپتال میں میڈیکل بورڈ نے طبی معائنہ کیا جس کے بعد انہیں رہا کر دیا گیا اور وہ اپنے گھر پہنچ گئے ہیں۔
یاد رہے کہ اٹارنی جنرل نے اس سے پہلے ہونے والی سماعت پر الزام عائد کیا تھا کہ کرنل (ر) انعام عملی طور پر جاسوسی کرتے ہیں۔ وہ اکیلے نہیں بلکہ ان کا پورا نیٹ ورک ہے۔
کرنل (ر) انعام الرحیم کا مبینہ اغوا
فوج کے سابق کرنل انعام الرحیم کو 16 دسمبر کو راولپنڈی میں واقع ان کی رہائش گاہ سے لے جایا گیا تھا۔
مبینہ اغوا کے درج مقدمے کے مطابق انعام الرحیم کو نامعلوم افراد نے عسکری 14 میں موجود ان کی رہائش گاہ سے اٹھایا جو گیریژن شہر میں خاصی محفوظ آبادی سمجھتی جاتی ہے۔
ایف آئی آرمیں کہا گیا کہ جس وقت انعام الرحیم سو رہے تھے، نامعلوم افراد ان کی رہائش گاہ میں زبردستی داخل ہوئے اور انہیں جبراً اغوا کر لیا جب کہ اہلِ خانہ کو دھمکیاں دیں۔
کرنل (ر) انعام الرحیم کے صاحبزادے حسنین انعام نے وائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ 16 دسمبر کی شب ساڑھے 12 بجے عسکری 14 میں واقع ان کے گھر میں سیاہ لباس میں ملبوس آٹھ سے دس مسلح افراد گھس آئے۔ یہ افراد والد کو اسلحے کے زور پر زبردستی اپنے ہمراہ گاڑی میں ڈال کر لے گئے۔
حسنین کے بقول ملزمان نے انہیں دھمکی بھی دی کہ اگر والد کی گمشدگی کو رپورٹ کیا تواس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔
کرنل (ر) انعام الرحیم کون ہیں؟
راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم لاپتا افراد اور فوجی عدالتوں سے سزائیں پانے والے افراد کی وکالت کے لیے مشہور ہیں۔
انہوں نے کچھ عرصہ پہلے پاکستان نیوی کے جہازوں پر حملہ کرنے والے ملزمان کی بھی وکالت کی تھی۔
کرنل (ر) انعام الرحیم ماضی میں فوج کے جنرل ہیڈ کوارٹر پر حملے کے ملزمان کی وکالت بھی کرتے رہے ہیں۔
انعام الرحیم ایڈووکیٹ نے سپریم کورٹ کے بعض جج صاحبان کے خلاف کچھ ریفرنس بھی دائر کیے ہوئے ہیں جن میں جسٹس منصور علی شاہ بھی شامل ہیں۔
حالیہ عرصے میں انہوں نے سی پیک اتھارٹی کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کی تعیناتی پر بھی پٹیشن داخل کی تھی جب کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران انہوں نے آرمی ایکٹ کی کاپی بھی عدالت کو پیش کی تھی۔