احسن بٹ ریاست ورجینیا کی ’جارج میسن یونیورسٹی‘ کے ’اسکول آف پالیسی اینڈ گورنمنٹ‘ میں اسسٹنٹ پروفیسر اور محقق ہیں۔ اردو وی او اے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’’پاکستان میں جب بھی کسی صوبے یا علاقے سے حقوق کے مطالبات زور پکڑنے لگتے ہیں تو ملک کی اسٹیبلشمنٹ اُنہیں ریاست کے مخالف یا غدار سمجھنے لگتی ہے۔ لہذا، پاکستان میں ریاست اور ادارے ملک کی نظریاتی اساس کے حوالے سے ہر قسم کی بحث کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں‘‘۔
احسن بٹ کے بقول،’’1940 اور 1950 کی دہائیوں کے دوران یورپی طاقتوں کا نوآبادیاتی تسلط ختم ہونے سے پاکستان اور بھارت سمیت بہت سے ملک آزاد ہوئے۔ ان میں سے پاکستان کے مشرقی اور مغربی حصوں کا دولخت ہونا دنیا کا ایک انوکھا واقعہ تھا، جس کا شدید نفسیاتی اثر باقی ماندہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ پر موجود رہا‘‘۔
واشنگٹن کے ’سٹمسن سینٹر‘ کے سینئر محقق سمیر لالوانی آزاد بلوچستان کی تحریک کا موازنہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے کرنے کو درست نہیں سمجھتے، کیونکہ، ان کے بقول، ’’دونوں مقامات کے سیاسی اور زمینی حقائق میں فرق ہے‘‘۔
’وائس آف امریکہ‘ کی اُردو سروس سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے، سمیر لالوانی کا کہنا تھا کہ ’’سابقہ مشرقی پاکستان کے معاملے میں حالات علیحدگی کیلئے موافق تھے، کیونکہ نہ صرف مشرقی پاکستان کی آبادی زیادہ تھی اور مقامی بنگلہ آبادی زندگی کے ہر شعبے پر حاوی تھی، بلکہ بھارت کا کردار بھی اہم تھا‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’مکتی باہنی کو بڑے پیمانے پر تربیت اور ہتھیار فراہم کئے گئے۔ جس کے تربیتی کیمپ ہر جگہ موجود تھے۔ اس کے علاوہ ایسٹ پاکستان رجمنٹ یونٹس کی کچھ تعداد بھی مکتی باہنی میں شامل ہوگئی تھی جو پاکستان فوج کا حصہ رہتے ہوئے مکمل طور پر تربیت یافتہ تھی‘‘۔
سمیر لالوانی نے کہا کہ ’’جب مکتی باہنی کے حملوں نے شدت اختیار کر لی تو بھارتی فوج بھی مکمل طور پر براہ راست اس جنگ کا حصہ بن گئی۔ مغربی پاکستان کے ایک ہزار میل دور ہونے کے سبب یہ ممکن نہیں تھا کہ پاکستانی فوج بھارتی فوج اور مکتی باہنی کا مقابلہ کر سکے‘‘۔
ایلک وارسناپ ’یونیورسٹی آف میری لینڈ‘ میں پبلک پالیسی کے شعبے میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ انہوں نے وی او اے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مغربی اور مشرقی پاکستان میں بہت سے حوالوں سے ’’محاذ آرائی کی کیفیت پیدا ہوگئی تھی اور یہ دونوں حصے جغرافیائی اعتبار سے ایک دوسرے سے ملے ہوئے بھی نہیں تھے۔ پھر ان دونوں کے درمیان بھارت موجود تھا جسے پاکستان اپنا دشمن تصور کرتا ہے۔ اس لئے مشرقی پاکستان کی علیحدگی ایک فطری بات تھی اور یہ علیحدگی مغربی پاکستان میں ارباب اختیار کیلئے تشویش کا باعث تھی‘‘۔
تاہم، جارج میسن یونیورسٹی کے پروفیسر اور محقق احسن بٹ کا کہنا ہے کہ ’’اگر سابقہ مشرقی پاکستان میں قیام پاکستان کے بعد پہلے دس سالوں میں لوگوں کو اُن کی آبادی کے مطابق حقوق دے دیے جاتے، تو اس بات کا امکان تھا کہ پاکستان کے یہ دونوں حصے متحد رہتے‘‘۔
سمیر لالوانی کہتے ہیں کہ بلوچستان کی صورت حال مختلف ہے۔’’ 1970 کی دہائی کے دوران بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کو کسی قدر بیرونی مدد حاصل تھی اور موجودہ حالات میں بھی خیال ہے کہ اُنہیں کسی نہ کسی طرح بیرونی مدد حاصل ہے۔ تاہم، اس کی مقدار بڑی حد تک کم ہے جو زیادہ تر مالی اور سفارتی مدد تک محدود ہے‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’شاید وہاں علیحدگی پسندوں کیلئے کچھ محفوظ پناہ گاہیں بھی فراہم کی گئی ہیں۔ لیکن، بلوچ علیحدگی پسندوں کی اہلیت دوسری علیحدگی پسند تحریکوں کے مقابلے میں کمزور درجے کی ہے‘‘۔
سمیر لالوانی نے کہا کہ ’’بلوچستان میں بلوچ کمیونٹی کی اکثریت بھی نہیں ہے۔ اس لئے بلوچ علیحدگی پسند تحریک کا موازنہ نہ تو سابقہ مشرقی پاکستان سے کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کشمیر سے‘‘۔
احسن بٹ کہتے ہیں کہ بلوچستان میں ریاست کے خلاف جو بھی تحریکیں مختلف وقتوں میں اُبھری ہیں وہ قیام پاکستان کے بعد کی پہلی تین چار دہائیوں سے مختلف ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ ’’پہلے بلوچ تحریکیں بلوچ سرداروں نے شروع کی تھیں۔ تاہم، گزشتہ 15 برس سے جو تحریکیں ابھری ہیں اُن کا محرک زیادہ تر متوسط طبقہ رہا ہے۔ گویا، ان تحریکوں پر سرداروں کا اثر کم ہوتا گیا‘‘۔
تاہم، احسن بٹ کے خیال میں ’’ماضی کی علیحدگی پسند تحریکیں بلوچستان کے مرکزی علاقوں سے اُٹھی تھیں جبکہ اب یہ اللہ نذر بلوچ کی بی ایل ایف کی طرح مکران جیسے ساحلی علاقوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں‘‘۔