واشنگٹن —
امریکی ریاست کنیٹی کٹ کے ایک چھوٹے سے شہر نیو ٹائون کے ایک اسکول میں فائرنگ کے واقعے کے بعد ریاست کی فضا بدستور سوگوار ہے جب کہ مرنے والوں کی یاد میں تقریبات منعقد کی جارہی ہے۔
یاد رہے کہ جمعے کو پیش آنے والے اس واقعے میں 'سینڈی ہوک ایلمینٹری اسکول' کے 20 طلبہ اور 6 اساتذہ ہلاک ہوگئے تھے جس کے بعد حملہ آور نے خود کو بھی گولی مار کر خود کشی کرلی تھی۔
اتوار کو نیو ٹائون کے علاوہ امریکہ کے مختلف شہروں میں نیوٹائون سانحے میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں دعائیہ تقریبات منعقد کی گئیں جب کہ نیوٹائون کے باسیوں نےمرنے والوں کی یاد میں پھولوں کے نذرانے پیش کیے۔
دریں اثنا حکام نے سانحے کی کچھ مزید تفصیلات جاری کی ہیں جن کے مطابق فائرنگ کے 20 سالہ ملزم ایڈم لانزا نے متاثرہ اسکول جانے سے قبل اپنے گھر میں اپنی والدہ نینسی لانزا کو سر میں چار گولیاں مار کر قتل کردیا تھا۔
حکام کے مطابق اپنی والدہ کو قتل کرنے کے بعد ملزم انہی کے نام سے رجسٹرڈ ایک رائفل اور دو آٹومیٹک ہینڈ گنز لے کر 'سینڈی ہوک ایلیمینٹری اسکول' پہنچا تھا۔
حکام کا کہنا ہے کہ ان ہتھیاروں کی مدد سے ملزم نے پہلے اسکول کی راہداری میں خواتین اساتذہ پر فائرنگ کی جس کے بعد اس نے اسکول کے دو کمروں میں موجود طلبہ اور اساتذہ پر اندھا دھند گولیاں برسائیں۔
حکام کے مطابق ملزم کو یہ کاروائی مکمل کرنے میں بمشکل 10 منٹ لگے اور اس دوران اس کی فائرنگ کی زد میں آکر چھ سے سات سال کی عمروں کے 20 طلبہ اور چھ خواتین اساتذہ ہلاک ہوگئیں۔
امریکی ٹی وی 'اے بی سی' سے گفتگو میں کنیٹی کٹ کے گورنر ڈینل ملوئے نے بتایا ہے کہ جائے حادثہ پر پولیس اور امدادی اہلکاروں کے پہلے دستے کے پہنچنے کے فوری بعد ملزم نے خود کوگولی مار کر خودکشی کرلی تھی۔
گورنر ملوئے کے بقول حکام اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ملزم کو اس وقت پولیس کی آمد کا پتا چلا جب وہ دوسرے کمرہ جماعت میں طلبہ پر فائرنگ کر رہا تھا جس کے بعد اس نے اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگی ختم کرنے کو ترجیح دی۔
تفتیش کاروں کا خیال ہے کہ ملزم ماضی میں اس اسکول کا طالبِ علم رہ چکا ہے اور وہ اپنے ساتھ اتنی گولیاں لایا تھا کہ اگر اسے بروقت نہ روکا گیا ہوتا تو اسکول میں کوئی بھی زندہ نہ بچتا۔
واضح رہے کہ امریکہ میں کسی شہری کی جانب سے عوامی مقامات پر فائرنگ کرکے معصوم لوگوں کی جان لینے کا گزشتہ دو سال میں یہ دسواں واقعہ ہے جس نے پورے امریکہ کو سوگوارکردیا ہے۔
اتوار کی شب صدر براک اوباما بھی نیو ٹائون پہنچے تھے جہاں انہوں نے سانحے میں مرنے والوں کی یاد میں منعقد کی جانے والی ایک بین المذاہب تقریب میں شرکت کی تھی۔
تقریب سے اپنے خطاب میں صدر براک اوباما نے کہا تھا کہ اس طرح کے سانحات کو مزید برداشت نہیں کیا جاسکتا اور ان کے سلسلے کو روکنے کے لیے امریکیوں کو تبدیل ہونا ہوگا۔
تقریب 'نیوٹائون ہائی اسکول' کے آڈیٹوریم میں منعقد کی گئی تھی جس میں شہر کے رہائشیوں کی بڑی تعداد اپنے بچوں کے ساتھ شریک ہوئی۔
اپنے خطاب میں صدر اوباما نے کہا تھا کہ یہ ان کے دور صدارت میں آتشیں اسلحے سے قتل عام کا چوتھا واقعہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ آنے والے دنوں میں اپنے صدارتی اختیارات اسعماےل کرتے ہوئے اس قسم کے واقعات کی روک تھام کے لیے اقدامات کریں گے۔
اس تقریب میں ایک مقامی اسلامک سینٹر کے کمسن مسلمان طالب علم نے قرآن کی تلاوت کی تھی جب کہ سینٹر کے ایک اور رکن نے مرنے والوں کے لیے دعائیہ کلمات کہے تھے۔
سانحے میں ہلاک ہونے والوں کی آخری رسومات کی ادائی کا سلسلہ پیر سے شروع ہوگا۔
یاد رہے کہ جمعے کو پیش آنے والے اس واقعے میں 'سینڈی ہوک ایلمینٹری اسکول' کے 20 طلبہ اور 6 اساتذہ ہلاک ہوگئے تھے جس کے بعد حملہ آور نے خود کو بھی گولی مار کر خود کشی کرلی تھی۔
اتوار کو نیو ٹائون کے علاوہ امریکہ کے مختلف شہروں میں نیوٹائون سانحے میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں دعائیہ تقریبات منعقد کی گئیں جب کہ نیوٹائون کے باسیوں نےمرنے والوں کی یاد میں پھولوں کے نذرانے پیش کیے۔
دریں اثنا حکام نے سانحے کی کچھ مزید تفصیلات جاری کی ہیں جن کے مطابق فائرنگ کے 20 سالہ ملزم ایڈم لانزا نے متاثرہ اسکول جانے سے قبل اپنے گھر میں اپنی والدہ نینسی لانزا کو سر میں چار گولیاں مار کر قتل کردیا تھا۔
حکام کے مطابق اپنی والدہ کو قتل کرنے کے بعد ملزم انہی کے نام سے رجسٹرڈ ایک رائفل اور دو آٹومیٹک ہینڈ گنز لے کر 'سینڈی ہوک ایلیمینٹری اسکول' پہنچا تھا۔
حکام کا کہنا ہے کہ ان ہتھیاروں کی مدد سے ملزم نے پہلے اسکول کی راہداری میں خواتین اساتذہ پر فائرنگ کی جس کے بعد اس نے اسکول کے دو کمروں میں موجود طلبہ اور اساتذہ پر اندھا دھند گولیاں برسائیں۔
حکام کے مطابق ملزم کو یہ کاروائی مکمل کرنے میں بمشکل 10 منٹ لگے اور اس دوران اس کی فائرنگ کی زد میں آکر چھ سے سات سال کی عمروں کے 20 طلبہ اور چھ خواتین اساتذہ ہلاک ہوگئیں۔
امریکی ٹی وی 'اے بی سی' سے گفتگو میں کنیٹی کٹ کے گورنر ڈینل ملوئے نے بتایا ہے کہ جائے حادثہ پر پولیس اور امدادی اہلکاروں کے پہلے دستے کے پہنچنے کے فوری بعد ملزم نے خود کوگولی مار کر خودکشی کرلی تھی۔
گورنر ملوئے کے بقول حکام اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ملزم کو اس وقت پولیس کی آمد کا پتا چلا جب وہ دوسرے کمرہ جماعت میں طلبہ پر فائرنگ کر رہا تھا جس کے بعد اس نے اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگی ختم کرنے کو ترجیح دی۔
تفتیش کاروں کا خیال ہے کہ ملزم ماضی میں اس اسکول کا طالبِ علم رہ چکا ہے اور وہ اپنے ساتھ اتنی گولیاں لایا تھا کہ اگر اسے بروقت نہ روکا گیا ہوتا تو اسکول میں کوئی بھی زندہ نہ بچتا۔
واضح رہے کہ امریکہ میں کسی شہری کی جانب سے عوامی مقامات پر فائرنگ کرکے معصوم لوگوں کی جان لینے کا گزشتہ دو سال میں یہ دسواں واقعہ ہے جس نے پورے امریکہ کو سوگوارکردیا ہے۔
اتوار کی شب صدر براک اوباما بھی نیو ٹائون پہنچے تھے جہاں انہوں نے سانحے میں مرنے والوں کی یاد میں منعقد کی جانے والی ایک بین المذاہب تقریب میں شرکت کی تھی۔
تقریب سے اپنے خطاب میں صدر براک اوباما نے کہا تھا کہ اس طرح کے سانحات کو مزید برداشت نہیں کیا جاسکتا اور ان کے سلسلے کو روکنے کے لیے امریکیوں کو تبدیل ہونا ہوگا۔
تقریب 'نیوٹائون ہائی اسکول' کے آڈیٹوریم میں منعقد کی گئی تھی جس میں شہر کے رہائشیوں کی بڑی تعداد اپنے بچوں کے ساتھ شریک ہوئی۔
اپنے خطاب میں صدر اوباما نے کہا تھا کہ یہ ان کے دور صدارت میں آتشیں اسلحے سے قتل عام کا چوتھا واقعہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ آنے والے دنوں میں اپنے صدارتی اختیارات اسعماےل کرتے ہوئے اس قسم کے واقعات کی روک تھام کے لیے اقدامات کریں گے۔
اس تقریب میں ایک مقامی اسلامک سینٹر کے کمسن مسلمان طالب علم نے قرآن کی تلاوت کی تھی جب کہ سینٹر کے ایک اور رکن نے مرنے والوں کے لیے دعائیہ کلمات کہے تھے۔
سانحے میں ہلاک ہونے والوں کی آخری رسومات کی ادائی کا سلسلہ پیر سے شروع ہوگا۔