فٹ بال کا عالمی میلہ اتوار سے قطر میں شروع ہونے جارہا ہے۔ہر چار سال بعد ہونے والے میگا ایونٹ کو دنیا کا سب سے زیادہ دیکھا جانےوالا ایونٹ کہا جاتا ہے۔ فیفا کے مطابق امکان ہے کہ ا س بار دنیا کی آٹھ ارب کی آبادی میں سے تقریبا پانچ ارب اس ایونٹ کو ٹی وی پر دیکھے گی۔
جتنا بڑا ایونٹ، اتنے ہی بڑے اس میں ہونے والے تنازعات ہیں جو میگا ایونٹ کے دوران تو شہ سرخی بنتے ہیں لیکن آنے والی نسلیں جب ان کے بارے میں پڑھتی ہیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
اگر آپ سمجھتے ہیں کہ فیفا ورلڈ کپ کے دوران ارجنٹائن فٹ بالر ڈیاگو میراڈونا کا 'ہینڈ آف گاڈ گول' اور زیڈان کا 'ہیڈ بٹ' ہی بڑے تنازعات ہیں، تو آگے بتائے جانے والے واقعات آپ کو حیران کرنے کے لیے کافی ہوں گے۔
کبھی ایک کوچ نے مخالف کھلاڑیوں کو 'جانور' کہا تو کبھی کسی کھلاڑی کو اون گول مہنگا پڑ گیا۔ یہی نہیں ایک بار تو ایک شہزادے نے ریفری پر پریشر ڈال کر ایک قانونی گول کو غیر قانونی بھی قرار دلوایا۔ اسی طرح کے دیگر واقعات کا ذکر یہاں کریں گے۔
جب ارجنٹائن کے کپتان نے ریفری کا فیصلہ ماننے نے انکار کیا
انگلینڈ اور ارجنٹائن کی فٹ بال ٹیموں کے درمیان معاملات کبھی بھی ٹھیک نہیں رہے۔ 1966 کے ورلڈ کپ کے کوارٹر فائنل میں جب دونوں ٹیمیں انگلینڈ کی سرزمین پر آمنے سامنے آئیں تو وہ کچھ ہوا جس کی کسی کو توقع نہیں تھی۔
میچ کے دوران ارجنٹائن کپتان اینٹونیو ریٹن کو ریفری نے گراؤنڈ سے باہر جانے کا کہا تو انہوں نے بظاہر ان کا فیصلہ ماننے سے انکار کردیا۔ لیکن بعد میں پتا چلا کہ ارجنٹائن کے کپتان کو ریفری کی زبان ہی سمجھ نہیں آئی اور وہ ایک مترجم کا انتظار کرنے کے لیے فیلڈ پر رکے رہے۔
مبصرین کےمطابق ارجنٹائن کے کپتان کو محض 'اپنے چہرے پر حیرانی 'کی وجہ سے باہر بھیجنا زیادتی تھی، اور اسی لیے انہوں نے دس منٹ تک کھیل کو روکے رکھا۔
اس میچ کے بعد انگلش ٹیم کے کوچ ایلف ریمزی نے مخالف ٹیم کے کھلاڑیوں کو 'جانور' کہا اور ان کے اس جملے کو انٹرنیشنل میڈیا نے خبروں کی زینت بنایا۔
انگلینڈ کے ورلڈ کپ فائنل میں گول کو جرمن آج بھی متنازع سمجھتے ہیں
انگلینڈ نے پہلی اور آخری مرتبہ ورلڈ کپ 1966 میں اپنے ہوم گراؤنڈ پر ہوم کراؤڈ کے سامنے جیتا تھا لیکن مبصرین فائنل میں انگلینڈ کے اس گول کو فٹ بال ورلڈ کپ کی تاریخ کا سب سے متنازع گول قرار دیتے ہیں، جس نے انہیں میچ میں فیصلہ کن برتری دلائی۔
ویمبلی اسٹیڈیم میں کھیلے گئے فائنل کے 101ویں منٹ میں جب جیف ہرسٹ نے یہ گول اسکور کیا تو اس وقت مغربی جرمنی اور انگلینڈ دونوں کے دو دو گول تھے۔
جرمن کھلاڑیوں کا مؤقف تھا کہ بال نے گول لائن پار نہیں کی، اور بار سے لگ کر واپس آگئی جب کہ سوویت ریفری کے بقول گول درست تھا جس کی وجہ سے انگلینڈ کو فائنل میں برتری ملی۔
میچ کا اختتام جیف ہرسٹ کی ہیٹ ٹرک پر ہوا جس کی وجہ سے انگلینڈ نے یہ میچ دو کے مقابلے میں چار گول سے اپنے نام کیا۔ تاہم جرمن مداح آج بھی جیف ہرسٹ کے دوسرے گول کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔
ٹاپ ٹیموں کے درمیان ورلڈ کپ میں دوستانہ میچ
کرکٹ میں تو میچ فکسنگ کے بارے میں سب نے سنا ہے لیکن فٹ بال کے عالمی کپ میں مبینہ فکسنگ اس سےبھی پرانی ہے۔ 1978 میں ارجنٹائن میں کھیلے گئے ورلڈ کپ میں میزبان ٹیم کو فائنل میں جگہ بنانے کے لیے پیرو کو بڑے مارجن سے ہرانا تھا اور جب میزبان ٹیم نے یہ میچ چھ صفر سے جیتا تو سب کو حیرانی ہوئی۔
صحافی جان اسٹرلنگ اپنی کتاب 'ڈیتھ اور گلوری، دے ڈارک ہسٹری آف دے ورلڈ کپ' میں لکھتے ہیں کہ پیرو کے ایک کھلاڑی کے بقول اس وقت کے ارجنٹائن کے صدر جنرل وڈیلا نے میچ سے قبل پیرو کے ڈریسنگ روم میں آکر لاطینی بھائیوں سے تعاون مانگا تھا۔
سن1986 میں 'دی سنڈے ٹائمز 'کی ایک رپورٹ کے مطابق اس شکست کے بعد ارجنٹائن نے پیرو کی غذائی اور مالی معاونت کی۔
یہی نہیں 1982 کے ورلڈ کپ میں بھی الجزائر کو گروپ اسٹیج سے باہر کرنے کے لیے مغربی جرمنی اور آسٹریا نے جو میچ کھیلا اسے آج بھی شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ الجزائر کی ٹیم سے دو ایک کی شکست کے بعد مغربی جرمنی کا اگلے مرحلے میں پہنچنا تقریبا ناممکن تھا۔ ایسے میں آسٹریا نے ان کی مدد کی اور کھیل کے دسویں منٹ میں مغربی جرمنی کے پہلے گول کے بعد دونوں ٹیموں نے ایک ایسا 'دوستانہ' میچ کھیلا جس میں کسی نے مزید گول کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔
اس میچ کے بعد الجزائر کی ٹیم ایونٹ سے باہر ہوگئی اور مغربی جرمنی کے ساتھ ساتھ آسٹریا کی ٹیم اگلے مرحلے میں پہنچ گئی۔ تاہم مبصرین آسٹریا بمقابلہ مغربی جرمنی کو تاریخ کا سب سے بورنگ میچ قرار دیتے ہیں۔
جب ریفری نے کویتی شہزادے کے کہنے پر فیصلہ واپس لے لیا
1982 کے ورلڈ کپ میں کویت کی فٹ بال ٹیم پہلی مرتبہ فائنل راؤنڈ میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئی۔ لیکن اسے تین میں سے دو گروپ میچز میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
کویت کے دوسرے میچ میں فرانس نے ایک کے مقابلے میں چار گول سے فتح تو حاصل کی لیکن یہ مقابلہ ڈرامے سے بھرپور رہا۔
میچ میں اس وقت دلچسپ صورتِ حال پیدا ہوئی جب سوویت ریفری نے فرانس کے کھلاڑی کی جانب سے کیا گیا گول درست قرار دیا،لیکن کویتی کھلاڑی بضد رہے کہ چونکہ ان کو سیٹی کی آواز آئی تھی، اس لیے انہوں نے کھیلنا بند کردیا تھا۔
ایسے میں کویتی فٹ بال ایسوسی ایشن کے صدر شہزادہ فہد فیلڈ پر آئے اور انہوں نے ایونٹ سے اپنی ٹیم کو 'پُل آؤٹ' کرنے یعنی دستبردار ہونے کی دھمکی دی، جس کے بعد ریفری نے گول کا فیصلہ واپس لے لیا۔
فرانس نے یہ میچ ایک کے مقابلے میں چار گول سے تو جیتا، لیکن بعد میں کویتی شہزادے پر 14 ہزار ڈالر کا جرمانہ ہوا اور ریفری کو معطل کردیا گیا۔
جرمن گول کیپر کا فرینچ کھلاڑی پر حملہ
اگر 1966 میں جرمن کھلاڑیوں کے ساتھ زیادتی ہوئی تو شائقین کی ہمدردیاں 16 سال بعد ان کے خلاف گئیں جب اسپین میں ہونے والے ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں مغربی جرمنی کے گول کیپر ہیرالڈ شوماکر نے بظاہر جان بوجھ کر فرینچ فٹ بالر پیٹرک بیٹسٹوں کو زخمی کیا۔
واقعہ اس وقت پیش آیا جب فرانس کے متبادل کھلاڑی پیٹرک بیٹسٹوں کو فیلڈ پر گول کرنے کی غرض سے بھیجا گیا تھا اور انہوں نے اپنی طرف سے کوشش بھی بھرپورکی، لیکن جب جرمن گول کیپر نے جاتی گیند کو چھوڑ کر سامنے سے آتے ہوئے حریف کھلاڑی کو ٹکر ماری تو سب حیران رہ گئے۔
اس موقع پر فرینچ کپتان مشل پلاٹینی اور ان کی ٹیم کے کھلاڑیوں کے علاوہ کسی نے واقعے کو سنجیدہ نہ لیا۔ پیرامیڈیکس کے آنے تک بیٹسٹوں فیلڈ پر لیٹے رہے اور جرمن گول کیپر سمیت تمام کھلاڑی فری کک کے انتظار میں کھڑے رہے۔
میچ کے بعد پتا چلا کہ بیٹسٹوں کی ریڑھ کی ہڈی میں چوٹ آئی ہے اور ان کے دو دانت ٹوٹ چکے ہیں۔
مغربی جرمنی نے یہ میچ پنلٹی شوٹ آؤٹ پر جیت کر فائنل میں جگہ بنائی جہاں انہیں اٹلی نے شکست دے کر ٹائٹل اپنے نام کیا۔
میراڈونا کے 'ہینڈ آف گاڈ' گول نے کئی بدلے لے لیے
ایک اور کوارٹر فائنل ، ایک اور تنازع، ابھی ارجنٹائن کے کھلاڑی 1966 میں 'جانور' کہے جانے کی بے عزتی کو بھولے نہ تھے کہ بیس سال بعد ڈیاگو میراڈونا کے ورلڈ کپ کوارٹر فائنل میں دو گول نے تہلکہ مچادیا۔ ایک کو شائقین نے 'گول آف دی سینچری' اور دوسرے کو 'ہینڈ آف گاڈ ' قرار دیا ۔
لیکن 'ہینڈ آف گاڈ' کی خاص بات یہ تھی کہ اس کے لیے میراڈونا نے سر کے بجائے اپنے ہاتھ کا استعمال کیا، جو اسے ایک غیرقانونی گول بناتا ہے۔ تاہم ریفری نے فیلڈ پر موجود انگلش کھلاڑیوں کے احتجاج کے باوجود اسے گول قرار دیا۔
اپنی سوانح میں ڈیاگو میراڈونا نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کا یہ گول ان ارجنٹائن نوجوانوں کے نام تھا جو برطانیہ کے خلاف 1982 میں ہونے والی فالکنڈز وار میں مارے گئے تھے ، اس گول کے ذریعے انہوں نے اس جنگ کا بدلہ لیا۔
کولمبیبا کے ایسکوبارکی اون گول پر ہلاکت
ویسے تو ہر کھلاڑی کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی ٹیم کے لیے گول اسکور کرے اور اس کے ہوتے ہوئے کوئی مخالف بال کو ان کے جال میں نہ پھینکے۔ لیکن 1994 کے ورلڈ کپ میں کولمبیا کے آندریس ایسکوبار نے میزبان امریکہ کے خلاف میچ میں غلطی سے اپنی ہی ٹیم کے خلاف گول کر دیا تھا جسے فٹ بال کی اصطلاح میں اون گول کہتے ہیں۔
عام حالات میں اون گول کو تھوڑی دیر بعد شائقین بھول جاتے ہیں لیکن ایسکوبار کاقاتل اس واقعے کو نہیں بھولااور اس نے انہیں ایک نائٹ کلب کے باہر ایک نہیں، چھ گولیاں مار کر ہلاک کردیا۔
دی گارڈئین اخبار کے مطابق کولمبین گینگسٹرز نے ورلڈ کپ میں ٹیم کے اچھا کھیلنے پر پیسے لگا رکھے تھے، جن کے ڈوبنے کے بعد ان میں سے ایک نے اپنا سارا غصہ ایسکوبار پر نکال دیا۔
زیڈان کا ہیڈ بٹ جو ہیڈلائن بن گیا
بات جب فرنچ فٹ بال کی ہورہی ہے تو زنڈین زیڈان کا بھی ذکر آنا چاہیے جو 1998 میں ورلڈ کپ وننگ ٹیم کے ہیرو تھے۔ آٹھ سال بعد جب فرنچ ٹیم ایک بار پھر فائنل میں پہنچی تو زیڈان اپنے کریئر کے اختتام پر تھے، لیکن انہوں نے اپنے آخری میچ کو منفی حوالوں سے یادگار بنایا۔
میگا ایونٹ کے فائنل میں زیڈان نے جب فٹ بال کے بجائے فٹ بالر کو ہیڈر مارا تو شائقین و ناظرین سب حیران رہ گئے۔ زیڈان جنہیں اس واقعے سے پہلے ایک نرم مزاج کھلاڑی سمجھا جاتا تھا، ان کا اٹلی کے مارکو میٹرازی کویوں ٹکر مارنا کسی کی سمجھ میں نہیں آیا۔
لیکن اس حرکت کے بعد زیڈان کو ریفری نے باہر بھیج کر فرانس کو دس کھلاڑیوں تک محدود کردیا،جس کے بعد میچ کا فیصلہ پنلٹی شوٹ آؤٹ پر ہوا، جس میں اٹلی نے کامیابی حاصل کی۔
بعد میں اسپینش اخبار 'ایل پائیس' کو ایک انٹرویو میں انہوں نے انکشاف کیا کہ اس میچ کے دوران اطالوی کھلاڑیوں نے ان کی ماں کے بارے میں متعدد بار غلط زبان استعمال کی، جس کا بدلہ انہوں نے اپنے انداز میں لیا ۔
زیڈان کا کہنا تھا کہ وہ مداحوں سے تو معافی مانگ لیں گے لیکن اٹلی کے کھلاڑیوں سے معافی مانگنے سے پہلے موت کو ترجیح دیں گے۔'
جب لوئس سواریز نے مخالف کھلاڑی کو میچ کے دوران کاٹا
سن 2014 کے ورلڈ کپ میں یوراگوئے کے فٹبالر لوئس سواریز نے اٹلی کے کھلاڑی جیورجیو چلینی کو کندھے پر اس وقت کاٹا جب وہ ساتھی کھلاڑی کے پاس کو گول میں پھینکنےکے انتظار میں کھڑے تھے۔
اس واقعے کے ری پلے میں صاف دیکھا جاسکتا ہےکہ سواریز نے مخالف کھلاڑی کو پہلے کاٹا اور پھر جب اطالوی کھلاڑی نے اپنا دفاع کرتے ہوئے انہیں دھکا دیا تو دونوں زمین پر گر گئے۔ اس وقت گراؤنڈ میں موجود امپائرز نے تو لوئس سواریز کی حرکت کو نظر انداز کردیا لیکن کیمرے کی آنکھ نے اسے محفوظ کر لیا۔
بعد میں لوئس سواریز نے ٹوئٹر پر چلینی سمیت فٹ بال کے مداحوں سے معافی تو مانگی لیکن ان کی اس حرکت پر فیفا نے ان پر نو میچوں کی پابندی عائد کرتے ہوئے انہیں چار ماہ تک فٹ بال کھیلنےسے معطل کردیا تھا۔