رسائی کے لنکس

ٹیپو سلطان ہیرو یا ولن؟ بھارت میں ایک بار پھر بحث


فائل فوٹو۔
فائل فوٹو۔

اٹھارویں صدی میں ہندوستان کی ریاست میسور کے فرماں روا رہنے والے ٹیپو سلطان بھارت میں ایک بار پھر ایک تنازع کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔

اس بار تنازع بھارت کے شہر ممبئی میں کھیل کے ایک میدان کا نام ماضی کے مسلمان حکمران ٹیپو سلطان کے نام پر رکھنے سے شروع ہوا ہے۔

بھارتی اخبار 'انڈین ایکسپریس' کے مطابق یہ میدان ممبئی کے مسلم اکثریتی علاقے ملوانی میں واقع ہے۔ مقامی سطح پر اس میدان کو ٹیپو سلطان گراؤنڈ ہی کہا جاتا تھا۔ گزشتہ برس اس علاقے سے منتخب ہونے والے مہاراشٹرا کے ریاستی وزیر اسلم شیخ نے اس میدان کی تزئین و آرائش کا کام شروع کرایا تھا۔

کام مکمل ہونے کے بعد بدھ کو میدان کا افتتاح کیا گیا تو بھارتیہ جنتا پارٹی نے اس کا نام ٹیپو سلطان سے موسوم کرنے کے خلاف احتجاج شروع کردیا۔

مہاراشٹرا کے سابق وزیرِ اعلیٰ اور موجودہ قائدِ حزبِ اختلاف دیویندرا فیڈناوس نے بیان دیا کہ "ہم گراؤنڈ کا نام کسی ایسے شخص کے نام پر نہیں رکھنے دیں گے جو بڑی تعداد میں ہندوؤں کی موت کا ذمے دار ہے۔"

بھارتیہ جنتا پارٹی سمیت دائیں بازو کی ہندو قوم پرست جماعتوں ویشوا ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے کارکنان نے اس معاملے پر میدان کے باہر احتجاج کیا جس کے بعد مقامی میڈیا کے مطابق پولیس نے کئی مظاہرین کو حراست میں بھی لیا۔

اس وقت مہاراشٹرا میں 2019 کے انتخابات میں کامیاب ہونے والے شیو سینا کے زیر قیادت انتخابی اتحاد ’مہاراشٹرا وکاس اگھاڑی‘(ایم وی اے) کی حکومت ہے جس کے وزیرِ اعلیٰ شیو سینا کے سربراہ ادھو ٹھاکرے ہیں۔

کیا نام تبدیل ہوا؟

حکومتی اتحاد میں شامل کانگریس سے تعلق رکھنے والے مہاراشٹراکے وزیر اسلم شیخ کا کہنا ہے کہ طویل عرصے سے کھیل کے میدان کو ٹیپو سلطان گراؤنڈ ہی کہا جاتا ہے۔ وہ صرف اس کی تعمیر نو کے بعد افتتاح کرنے آئے تھے۔ بی جے پی اس مسئلے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کر رہی ہے۔

دوسری جانب شیو سینا کے رہنما اور وزیر ادتیہ ٹھاکرے نے کہا کہ جس علاقے میں گراؤنڈ واقع ہے، اس کے انتظامات سنبھالنے والی ’برہن ممبئی میونسپل کارپوریشن‘ نے گراؤنڈ کے نام کی تبدیلی کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔

ٹیپو سلطان ہیرو یا ولن؟

ٹیپو سلطان بھارت کے جنوب میں واقع میسور کی سلطنت کے حکمران تھے۔ ان کا حقیقی نام سلطان فتح علی تھا۔ وہ 10 نومبر 1750 کو دیوانہالی میں پیدا ہوئے۔ یہ علاقہ اب بھارت کی ریاست کرناٹک کے شہر بنگلورو میں شامل ہے۔

ٹیپو سلطان 1782 میں میسور کے حکمران بنے۔ انہیں تاریخی طور پر ’شیرِ میسور‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ٹیپو سلطان کے دورِ حکومت کو جنگ میں ٹیکنالوجی کے استعمال اور انتطامی سطح پر کئی نئے تصورات متعارف کرانے کے لیے یادگار تصور کیا جاتا ہے۔

برصغیر میں ٹیپو سلطان کو جنگ میں راکٹ کے استعمال کا بانی قرار دیا جاتا ہے۔ سن 1780 اور 1790 میں ٹیپو سلطان نے برطانیہ سے ہونے والی جنگوں میں راکٹوں کا استعمال کیا تھا۔

مؤرخین کے مطابق ٹیپو سلطان کو باغبانی اور زراعت سے خاص دلچسپی تھی اور انہوں نے بنگلور میں 40 ایکڑ پر پھیلا ہوا لال باغ بنایا تھا۔ اراضی کے انتظام سے متعلق سلطان کے قوانین کی وجہ سے میسور میں ریشم کی صنعت کو فروغ ملا اور یہ ریاست ایک اہم معاشی مرکز میں تبدیل ہو گئی تھی۔

ٹیپو سلطان نے 1798 سے 1799 کے دوران مرہٹوں اور برطانیہ کے خلاف کئی جنگیں لڑیں اور انہیں شکست بھی دی۔ لیکن برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی، مرہٹوں اور حیدرآباد کے نواب نے مل کر بالآخر ٹیپو کو شکست دی اور چار مئی 1799 کو سرنگا پٹم کے قلعے کا دفاع کرتے ہوئے ان کی موت ہوئی تھی۔

ہندوستان میں برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی کا مقابلہ کرنے کی وجہ سے ٹیپو سلطان کو عموماً 'آزادی کا ہیرو' تصور کیا جاتا ہے۔برصغیر میں ایسٹ انڈیا کمپنی تاریخ پر ’انارکی‘ کے عنوان سے کتاب لکھنے والے مؤرخ ولیم ڈیل رمپل کے مطابق ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف ٹیپو سلطان کی عسکری حکمت عملی کو دیکھتے ہوئے انہیں مثبت انداز میں یاد کیا جاتا تھا۔

اقلیتوں کے تحفظات دور کرنے کا بی جے پی کا منصوبہ
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:02 0:00

ان کے مطابق ٹیپو سلطان کمپنی کے خلاف مزاحمت کرنے والے سب سے بڑے حریف تھے۔ انہوں نے کبھی کمپنی کے ساتھ اتحاد نہیں کیا اگرچہ خطے میں ان کے حریف مرہٹوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی سے تین بار اتحاد کیا۔

یہی وجہ ہے کہ ماضی میں ٹیپو سلطان کو بھارت میں آزادی کا سپاہی قرار دیا جاتا تھا۔ ان کی زندگی پر ’’دی سورڈ آف ٹیپو سلطان‘‘ کے نام سے ایک ڈرامہ سیریل بھی بنایا گیا جس میں انہیں برطانیہ کا مقابلہ کرنے والے بہادر حکمران کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔

تنازعات کا آغاز کب ہوا؟

حالیہ برسوں میں یہ پہلا موقع نہیں جب ٹیپو سلطان کے نام پر بھارت میں سیاسی تنازع کھڑا ہوا ہے۔ 2014 میں بھارت کے یومِ جمہوریہ پر ریاست کرناٹک کے فلوٹ میں ٹیپو سلطان کا مجسمہ شامل تھا جس پراس وقت سوشل میڈیا پر ردعمل بھی سامنے آیا تھا۔

برطانوی خبر رساں ادارے 'بی بی سی' کے مطابق ہندو قوم پرستوں نے ٹیپو سلطان پر ہندوؤں کے قتلِ عام اور جبراً مذہب تبدیل کرانے کے الزامات عائد کیے تھے اور یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ ٹیپو سلطان جیسا ظالم حکمران ہندوستان کی آزادی کا ہیرو نہیں ہوسکتا۔

اس کے بعد ریاست کرناٹک میں کانگریس کی حکومت نے 2015 میں جب ٹیپو سلطان کا یومِ پیدائش منانے کا اعلان کیا تو اس پر بھی شدید رد عمل سامنے آیا تھا۔

راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سینیئر رہنما وی ناگ راج نے کہا تھا کہ ٹیپو عدم برداشت رکھنے والے ایک بادشاہ تھے اور ان کی تلوار پر یہ درج تھا کہ اسلام کو نہ مانننے والوں کو قتل کردو۔اس کے علاوہ بی جے پی سے تعلق رکھنے والے اس وقت کے وفاقی وزیر اننت کمار ہیگڑے نے ٹیپو سلطان کو قاتل اور ’ریپسٹ‘ کہا تھا۔

ان بیانات پر کانگریس نے ٹیپو سلطان کا دفاع کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا تھا کہ ان کا شمار ملک کے عظیم حکمرانوں میں ہوتا ہے۔

سال 2017 میں کرناٹک کی عظیم پریم جی یونیورسٹی کے استاد چندن گوڑا نے ’دی ہندو‘ کے لیے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ تاریخ کی نصابی کتابوں اور پاپولر ادب میں ٹیپو کو انگریزوں کے خلاف لڑنے والے بہادر شہید کے طور پیش کیا جاتا ہے۔

بھارتی لوک سبھا میں مسلمانوں کی تعداد کم کیوں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:02 0:00

ان کے مطابق 1970 کی دہائی میں دائیں بازو کی ہندو قوم پرست تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے کنڑ زبان میں ہندوستان کی تاریخ سے متعلق ’بھارت بھارتی‘ کا جو کتابی سلسلہ شائع کیا تھا، اس میں ٹیپو کی تعریف کی گئی تھی اور انہیں محبِ وطن قرار دیا گیا تھا۔

چندن گوڑا کے مطابق دائیں بازو کی ہندو جماعتوں کے مؤقف میں تبدیلی آگئی ہے اور ٹیپو سلطان پر ان کا سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ انہوں نے کورگ میں ہزاروں ہندوؤں کو قتل کرایا تھا۔ اس کے علاوہ کورگ اور مالابار میں ہندوؤں اور میسیحیوں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا تھا۔

ٹیپو سیکولر تھا یا ہندو مخالف حکمران؟

مؤرخ محب الحسن نے 1950 کی دہائی میں لکھی گئی اپنی کتاب ’ہسٹری آف ٹیپو سلطان‘ میں ان تمام الزامات کا جائزہ لیا ہے۔ ان کی اس کتاب کا اردو ترجمہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان سے شائع ہوچکا ہے۔

محب الحسن لکھتے ہیں کہ غیر مسلموں کے باب میں ٹیپو کی پالیسی پر مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ برطانوی مؤرخ کرک پیٹرک کے نزدیک ٹیپو ’عدم روادار، متعصب یا غضب ناک متشدد تھا۔ایک اور مؤرخ ولکس نے اپنی کتاب 'تاریخِ میسور' میں جبراً مذہب تبدیل کرانے، مندر ڈھانے اور جائیدادیں ضبط کرنے کی بنیاد پر ٹیپو کو ایک ’کٹر متعصب‘ ثابت کیا ہے۔

محب الحسن کے مطابق دوسری جانب ٹیپو کے درباری عہدے داروں اور فوج میں کئی ہندو شامل تھے۔ انہوں نے کئی مندروں کی تعمیر کرائی۔

"میسور میں ہندو تہوار دسہرا عظیم الشان انداز میں منایا جاتا تھا اور دس روز تک اس کی تقریبات جاری رہتی تھیں۔کئی تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ ٹیپو نے کئی ہندو مندر تعمیر کرانے کے لیے شاہی خزانے سے بڑی رقوم عطیہ کیں۔"

یہ تاریخی واقعات بیان کرنے کے بعد محب الحسن لکھتے ہیں کہ ٹیپو اگر متعصب نہیں بلکہ روشن خیال اور روادار حکمران تھا تو کورگ اور مالابار میں اس نے لوگوں کو اسلام قبول کرنے پر کیوں مجبور کیا؟

ان کے بقول "اس کا صحیح جواب یہی ہے کہ اس کے اس طرزِ عمل کی پشت پر مذہبی نہیں بلکہ سیاسی محرکات کار فرما تھے۔ تبدیلیٔ مذہب کو وہ اپنی اس رعایا کے لیے ایک سزا تصور کرتا تھا جو بار بار بغاوت کے جرم کی مرتکب ہوتی تھی۔ چنانچہ اس نے اپنے افسروں کو یہ حکم دیا تھا کہ کورگ اور مالابار کے لوگ اپنی باغیانہ روش سے باز نہ آئیں تو انہیں مسلمان بنایا جائے۔"

محب الحسن کے مطابق یہ بتانا مشکل ہے کہ کورگ اور مالابار کے کتنے باشندوں کو مسلمان بنایا گیا۔ اس سلسلے میں انگریزوں کے بیانات کو باور نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ ان کا مقصد ٹیپو کو بدنام کرنا اور اس کے خلاف پراپیگنڈا کرنا تھا۔ اس سلسلے میں مسلمانوں کے بیانات کو اس لیے قابلِ اعتماد نہیں کہا جاسکتا کہ وہ سلطان کو اسلام کا علمبردار بنا کر پیش کرنے پر تلے رہتے ہیں۔

ممبئی کی بلال مسجد کا ’لنگر رسول‘
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:17 0:00

مؤرخ ولیم ڈل رمپل کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنی سلطنت میں ٹیپو نے ہندوؤں کے مندروں کی سرپرستی کی۔ لیکن یہ اسے دشمنوں کے ساتھ سخت برتاؤ سے نہیں روک سکی۔ انہوں نے اپنے حریف علاقوں میں جبری طور مذہب بھی تبدیل کرایا۔

لیکن ڈیل رمپل کا کہنا ہے کہ مذہب کا سیاست میں کردار ماضی میں ویسا نہیں تھا جیسا آج کی دنیا میں ہے۔مرہٹوں کی فوج میں سینکڑوں مسلمان تھے اور ٹیپو کی فوج کی اکثریت ہندوؤں پر مشتمل تھی۔ ٹیپو کے زیادہ تر قریبی مشیر ہندو تھے اور ان کے دربار میں ایک برہمن نجومی بھی ہوتا تھا۔

ٹیپو سے متعلق پروفیسر رام پنیانی نے ’ملی گزٹ‘ میں اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ٹیپو کی ایک متوازن تصویر پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں ںے سب سے پہلے یہ پیش بینی کرلی تھی کہ برطانیہ ایک الگ طرح کی قوت ہے اور اس کے خلاف مزاحمت کا آغاز کیا تھا۔ وہ اس سرزمین پر برطانیہ کے خلاف مزاحمت کے بانیوں میں سے ہیں۔

تاریخ کی اصلاح یا سیاست

پروفیسر رام پنیانی کے مطابق تفرقے پیدا کرنے والوں نے ٹیپو کی تعریف سے لے کر اسے ایک برے کردار کے طور پر پیش کرنے تک جو کوششیں کی ہیں وہ ان کی تفرقے پر مبنی نظریے کی پیروی کے سوا کچھ نہیں۔

ممبئی میں گراؤنڈ کو ٹیپو سلطان کے نام سے موسوم کرنے پر بی جے پی کا موقف ہے ٹیپو نے ہندوؤں کو ظلم و جبر کا نشانہ بنایا تھا، اس لیے ان کا شمار ہندوستان کی آزادی کے ہیروز میں نہیں ہوسکتا۔

اس کے جواب میں مہاراشٹرا کے حکومتی ارکانِ اسمبلی نے دعویٰ کیا ہے کہ 2017 میں کرناٹک اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت رام ناتھ کووند نے بھی ٹیپو سلطان کی تعریف کی تھی۔

ممبئی کے میئر کشوری پڈنیکر نے الزام عائد کیا ہے کہ بی جے پی اس وقت معاملے کو بنیاد بنا کر تفرقے کو ہوا دے رہی ہے۔

میئر کشوری پڈنیکر نے 2001 سے 2013 کے درمیان میونسپل کونسل کی وہ دستایزات بھی جاری کی ہیں جن میں بی جے پی کے ارکان نے ممبئی کی ایک سڑک ٹیپو سلطان کے نام سے موسوم کرنے کے متفقہ فیصلے شامل تھے۔

ڈی ریڈیکلائزیشن کیمپ بنانے کی تجویز پر کشمیری ناراض
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:17 0:00

مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے حکومت میں آنے کے بعد کئی ایسے اقدامات کیے ہیں جن میں تاریخ کو ’درست‘ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے کئی اقدامات سامنے آچکے ہیں۔ اتر پردیش، مدھیہ پردیش، ہریانہ سمیت مختلف ریاستوں میں مسلم ناموں والے کئی شہروں کے نام تبدیل کردیے گئے ہیں۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق 2018 میں وزیر اعظم مودی نے اسکالرز کی ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جسے یہ ذمے داری دی گئی تھی کہ وہ تاریخی طور پر ثابت کریں کہ ہندوؤں کا نسلی تعلق براہ راست بھارت کے ابتدائی باشندوں سے ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے نئے سرے سے تاریخ نویسی اور شہروں کے نام تبدیل کرنے جیسے اقدامات سے مسلمانوں کو خدشہ ہے کہ انہیں ملک میں دوسرے درجے کا شہری بنا دیا جائے گا جب کہ بی جے پی اسے ہندوستان کی تاریخ سے غلامی کے اثرات ختم کرنے کی کوشش قرار دیتی ہے۔

XS
SM
MD
LG