کھانا پکانے کا فن اور خاص کر لذیذ طعام کا اہتمام صدیوں سے انسانی تہذیب کے ارتقا کی علامت رہا ہے۔ ذائقے دار انواع و اقسام کے کھانے اور پھر ان کی پیشکش کسی بھی ملک یا خطے کی تہذیب و ثقافت کی آئینہ دار سمجھی جاتی ہے۔
کھانوں اور ان کی پیشکش کا تذکرہ آپ کو قوموں کی تاریخ میں ہر جگہ ملتا ہے اور جب بھی کسی قوم کی شان دار روایات کا ذکر آتا ہے تو لذتِ کام و دہن کی بات ضرور ہوتی ہے۔ مشرقی روایات ہوں یا مغربی، یہ موضوع ضرور زیرِ بحث لایا جاتا ہے۔
کھانوں کی کسی قوم اور تہذیب میں کیا اہمیت ہے، اس کا تجربہ مجھے اس وقت ہوا جب میں پہلی مرتبہ پاکستان سے بیرونِ ملک گیا اور پہلے ایران اور پھر چند ہی مہینے بعد امریکہ عازمِ سفر ہوا۔
یہ بات ہے مارچ 1980 کی جب میں ایران کے دارالحکومت تہران پہنچا اور اس کے بعد اسی سال ستمبر کے اوائل میں امریکہ میں قدم رکھا۔ جیسا کہ پڑھتے اور سنتے آئے تھے، ایران میں قدیم تہذیب و تمدن اور وہاں کے ثقافتی ورثے نے ہمیں اپنا گرویدہ بنالیا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب ایران میں آیت اللہ خمینی کا انقلاب برپا ہو چکا تھا اور پرانی روایات اور بدلتے حالات کے باہمی اختلاط سے نیا ایران جنم لیتا نظر آ رہا تھا۔
یوں تو اس دور کے بہت سے پہلوؤں پر سیر حاصل گفتگو ہو سکتی ہے، لیکن اس وقت ہم موضوع پر ہی رہتے ہیں جو ہے ایران کے کھانے۔
ایران کے ایک مخصوص پکوان نے مجھے اور ہماری ٹیلی ویژن ٹیم کو اپنی جانب خاص طور سے راغب کیا۔ یہاں کی ایک مرغوب اور یوں کہیے کہ عوامی ڈش چلو کباب ہے جس سے ہم بہت لطف اندوز ہوئے۔
یہ سادے چاول اور کباب کا گویا ایک امتزاج ہے جو نہایت آسانی سے تیار کرلیا جاتا ہے اور دہی کی خاص انداز کی چٹنی کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔
یہاں امریکہ میں پہلے پہل میری آمد مشہور 'سیراکیوس یونیورسٹی' میں دو مہینے کے ایک کورس میں شرکت کے سلسلے میں ہوئی جس میں مشرقی یورپ، جنوبی ایشیا، مشرقِ وسطیٰ اور کیریبین ملکوں کے صحافی بھی شامل تھے۔ یہ ایک بڑا شان دار اور معلوماتی تجربہ تھا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب افغانستان میں سوویت قبضے کے خلاف مسلح مزاحمت زور پکڑ چکی تھی اور پورا خطہ خاص کر پاکستان اس سے براہِ راست متاثر ہو رہا تھا۔ ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد بدلتے ہوئے پسِ منظر میں اٹھنے والی گرد ابھی دھیرے دھیرے بیٹھ رہی تھی جب کہ خود پاکستان میں فوجی حکومت اقتدار میں تھی اور سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دیے جانے کے بعد وہاں کی سیاسی فضا بظاہر غیر یقینی کا شکار نظر آ رہی تھی۔ سیراکیوس یونیورسٹی میں دورانِ کورس جہاں بھی ہمیں جانا پڑا وہاں اور باتوں کے علاوہ یہ موضوعات بھی زیرِ بحث آتے۔
خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ آمدم برسرِ مطلب۔ بتاتا چلوں کہ سیراکیوس میں قیام کے دوران یہ عقدہ کھلا کہ کورس کے تمام شرکا کو اپنے اپنے طور پر ایک خاص ڈش بھی پکانی ہوگی۔ یہ ایک نئی بات تھی اور ہم اس مخمصے میں پڑ گئے کہ یہ کس طرح ممکن ہوگا۔
لیکن ایک دن ہماری میزبان خاتون اور ان کے شوہر نے اس کی فرمائش کر ہی ڈالی۔ اب میں عجیب مشکل میں پڑ گیا۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ ذہن پر بہت زور ڈالا کہ گھر میں کیا خاص ڈشیں تیار کی جاتی تھیں۔ وہ ظاہر ہے سب یاد تو تھیں لیکن ان کی تیاری کا نسخہ کہاں ذہن میں محفوظ ہو سکتا تھا۔
آخر وہ دن آ ہی گیا جب میزبان خاتون عینالیس جو جرمن نژاد تھیں اور ان کے امریکی شوہر روبرٹ سن نے کہا کہ آج کے ویک اینڈ ڈنر پر ہم آپ کے مہمان ہیں۔ یعنی گھر پر آج آپ کو کوئی ایک ڈش بنانی ہے۔ تو صاحب ہم بھی خود ساختہ اعتماد کے ساتھ کمر بستہ ہوگئے۔
میں نے ان سے کچھ ضروری اشیا اور تقریباً دو کلو دنبے کے گوشت کی فرمائش کی اور کچھ ضروری مصالحہ جات کی بھی۔ سیراکیوس میں اس وقت دیسی گروسری کی ایک ہی دکان تھی جہاں سے تمام متعلقہ اشیا دستیاب ہوگئیں۔
سچ بتاؤں تو آخر وقت میں میں نے ٹال مٹول کی بہت کوشش کی لیکن میں نے محسوس کیا کہ میزبان نہایت سنجیدہ ہیں۔ انھوں نے ہماری ٹال مٹول کی کوشش کو ناکام بنادیا اور عینالیس نے سہ پہر مجھے یونیورسٹی میں ٹیلی فون کیا کہ ہم آپ کے منتظر ہیں۔
خیر میں گھر آیا اور بڑے اعتماد سے لیکن ڈرتے ڈرتے کچن میں داخل ہوا، اس لیے کہ کھانا پکانے کا یہ پہلا تجربہ تھا اور میں خواہ مخواہ اپنی مہارت کا انھیں یقین بھی دلا چکا تھا۔ میں نے پاکستان میں گوشت کا اِسٹو پکانے کا جو مشاہدہ کیا تھا، اسے ہی بروئے کار لانے کی ٹھانی۔
گوشت کو دھونے کے بعد اسے پتیلی میں ڈالا اور ساتھ ہی تھوڑا سا پیسا ہوا لہسن۔ پھر کچھ دیر ابلنے کے لیے چھوڑ دیا۔ بعد میں کافی ساری کٹی ہوئی پیاز، ثابت گرم مصالحہ، یعنی دار چینی کے تین چار ٹکڑے، پانچ یا چھ بڑی الائچی، تھوڑی سی کالی مرچ، تھوڑی سی ثابت سرخ مرچ، تیز پتہ اور حسبِ ذائقہ نمک اس میں ڈال دیا۔ اوپر سے کوکنگ آئل کے دو بڑے چمچے۔
کفگیر سے اسے چلادیا اور پھر دھڑکتے دل کے ساتھ انتظار کی کیفیت سے گزرتا رہا کہ دیکھیں کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے؟
کچھ دیر کے بعد اس کی اشتہا انگیز خوشبو سے حوصلہ ہوا اور حتمی نتیجے کو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ہمارے گھریلو نقطہ نظر سے نہ سہی لیکن امریکی نقطۂ نظر سے اِسٹو کی شکل کا بہت ہی مزیدار سالن تیار ہوگیا تھا۔
اس جرأتِ رندانہ کا صلہ اس وقت مل گیا جب میزبانوں نے اور ان کی ایک مہمان فیملی نے تعریفوں کے پل باندھ دیے اور اس سالن کی ترکیب باضابطہ لکھ کر دینے کی فرمائش کر ڈالی۔ میرے لیے یہ ایک ناقابلِ فراموش تجربہ تھا۔
آپ بھی کوشش کر دیکھیے۔ یقین سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ کچھ نہ کچھ بات بن جائے گی اور خاص کر ایسی صورت میں جب جلدی میں آسان نسخے کی تلاش ہو۔
اونچ نیچ کی صورت میں ذمہ داری بہرحال آپ کی اپنی!