کھانا پکانا، پکاتے ہوئے گانا اور پکا کر کھلانا۔ یہ تھا میرا مشغلہ جو 12، 13 سال کی عمر سے آج تک میری زندگی کی سب سے بڑی تفریح ہے۔
تفریح کایہ انداز مجھے اپنی والدہ سے ورثے میں ملا ہے۔ یا یوں سمجھ لیں کہ میں نے خود کو خوش رکھنے کے لیے تفریح کا یہ انداز ان سے سیکھا ہے۔
مجھے اپنے بالکل ابتدائی بچپن کے وہ دن اب بھی یاد ہیں جب میری والدہ جنہیں موسیقی کا بہت شوق تھا، گھر کے کاموں کے دوران خاص طور پر دوپہر کا کھانا تیار کرتے ہوئے گنگنایا کرتی تھیں۔
لکڑی کے چولہے پر کھانا پکاتے اور توے پر اپنے بڑے سے گھرانے کے لیے بہت سی روٹیاں پکانے کے دوران وہ اس زمانے کے تمام مقبول پاکستانی اور بھارتی نغمے انتہائی سر میں گایا کرتی تھیں اور ایسے میں ان کے چہرے پر ایک عجیب سی طمانیت اور سرور کا احساس ہوتا تھا۔ جو یا تو ان موسیقی کے سروں کے نتیجے میں یا پھر اپنے بچوں کے لیے کھانا تیار کرنے کی خوشی کی وجہ سے پیدا ہوتا تھا۔
مجھے یاد ہے کہ میں اپنی والدہ کے ساتھ باورچی خانے کے اس گنگناتے ماحول میں ان کے ساتھ ایک چھوٹی سی پیڑھی پر بڑے شوق سے کھانا پکنے اور گرما گرم کھانا کھانے کے انتظار میں بیٹھی رہتی اور اپنی والدہ کے انتہائی سریلے انداز میں گائے جانے والے ان نغموں کو سن کر محظوظ ہوتی رہتی۔
ان گانوں کا سلسلہ اس وقت رک جاتا تھا جب وہ گاہے بگاہے چولہے میں جلتی لکڑیوں کی آگ کو تیز اور دھیما کرتیں۔ اور پھر باورچی خانہ، کھانا پکانا اور گنگنانا میری ذات کا بھی حصہ بنتا چلا گیا اور اپنی والدہ کی طرح کھانا پکانا، پکاتے ہوئے گانا اور پکا کر کھلانا میری زندگی کا بھی سب سے بڑا شوق اور سب سے بڑا مشغلہ بن گیا۔
مجھے یاد ہے کہ میں نے صرف 12 سال کی عمر میں اپنے گھر والوں کے لیے کھانا پکانا شروع کر دیا تھا۔
گرمیوں کی چھٹیوں میں بہاولپور کی جون جولائی کی سخت گرمی میں اپنے چھوٹے سے کچن میں صبح 11 بجے سے دوپہر ڈھلنے تک 10 افراد کے ایک بڑے سے مگر محبت سے بھرے گھرانے کے لیے ہنڈیا پکانا اور پکاتے ہوئے گنگنانا، میری سب سے بڑی تفریح تھی۔ آج بھی جب میرا گھرانا صرف چار افراد پر مشتمل ہے، یہی گانا اور پکانا میری گھریلو زندگی کا سب سے اہم مشغلہ ہے۔
میں ہر کھانا پکا لیتی ہوں اور جو دل چاہتا ہے پکا لیتی ہوں۔ جیسا بھی پکاتی ہوں، محبت سے پکاتی ہوں اور میرے دانشور شوہر جمیل اختر اور امریکی ماحول میں پلے بڑھے مگر مشرقی کھانوں کے شوقین میرے بچے دانش اور بینش میرا پکا ہر کھانا ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ کر اسی شوق سے کھاتے اور سراہتے ہیں، جس شوق سے میں اپنے بچپن میں ایک چھوٹے سے باورچی خانے میں ایک چھوٹی سی پیڑھی پر بیٹھ کر لکڑی کے چولہے پر اپنی سریلی والدہ کی شوقیہ موسیقی کے سنگ پکے گرما گرم کھانے کھایا اور سراہا کرتی تھی۔
مجھے پورے دن کا وہ لمحہ سب سے بار آور محسوس ہوتا ہے جب میرا بیٹا میرا پکا کھانا کھا کر خدا کا شکر ادا کرنے کے بعد بلند آواز سے کہتا ہے "شان دار کھانا، مزہ آگیا!"
اس کا یہ نعرہ کرونا وائرس کے سبب کیے گئے لاک ڈاؤن سے پہلے صرف ہفتے اور اتوار کو سننے کو ملتا تھا جب وہ نیو یارک میں اپنی نوکری سے فارغ ہو کر ویک اینڈ پر اپنے گھر ورجینیا آتا تھا۔ لیکن آج کل جب وہ یہاں ورجینیا میں ہمارے ساتھ گھر میں ٹیلی ورک کر رہا ہے، یہ نعرہ اب ہفتے میں ساتوں دن سننے کو مل رہا ہے۔
کرونا لاک ڈاؤن کے دوران آج کل میرا دفتر 'ڈائننگ ٹیبل' پر ہے اور میرا کچن چند فٹ کے فاصلے پر۔ تو میرے یے کھانا پکانا اور دفتر کا کام کرنا دونوں ہی آسان ہو گئے ہیں۔
دوپہر کو صرف وہ کھانا پکتا ہے جو صرف 20، 25 منٹ میں تیار ہو جائے۔ اس دوران دفتر کا کام جاری رہتا ہے اور کھانا پکنے کے بعد تو سارا دن بلکہ رات تک ڈائننگ ٹیبل پر کھانا نہیں بلکہ دفتر لگا رہتا ہے۔
میں ہر کھانا پکاتی ہوں۔ مگر ہر بار وہی کھانا مختلف ذائقہ اور خوشبو لیے ہوتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میں ناپ تول کر نہیں پکاتی۔
میرے ہر کھانے کی تراکیب اور اجزا میرے موڈ، میری مصروفیت، کچن کے مسالوں اور فریج میں دستیاب اشیا کے مطابق بدلتے رہتے ہیں۔
میرا کچن میری ساتھی سارہ زمان کے ابو کی طرح کوئی سائنسی تجربہ گاہ تو نہیں، لیکن میری تفریحی تجربہ گاہ ضرور ہے جس میں ہر روز موسیقی کے سنگ سنگ ایک نیا تجربہ کرتی ہوں۔
میں اپنے کھانوں کی تراکیب اس انداز میں نہیں بتا سکتی جنہیں آپ اسی طرح پکا سکیں جیسا کہ آپ ہماری ساتھی مدثرہ منظر کے حلوے، بہجت جیلانی کے زیرہ چکن، نیلو فر مغل کے کڑھائی گوشت اور چپلی کباب کی تراکیب پر عمل کر کے پکا سکتے ہیں۔ کیوں کہ مجھے خود نہیں معلوم ہوتا کہ میں آج کیا چیز، کس ترکیب سے، کس موڈ کے ساتھ اور کس قسم کی موسیقی کے سنگ پکاؤں گی اور یہ کہ میں کیا چیز، کس ترکیب سے اور کن اجزا کے ساتھ پکاتی ہوں۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ میں جو بھی پکاؤں گی، میرے ڈائننگ روم میں یہ آواز ضرور گونجے گی کہ "شان دار کھانا، مزہ آگیا!"