دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح یورپی ممالک میں بھی کرونا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اٹلی، اسپین اور جرمنی کے بعد اب بقیہ یوروپی ملکوں میں بھی صورت حال تیزی سے بگڑ رہی ہے۔
لندن سے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے برطانوی ایوان بالا کے رکن لارڈ نذیر نے وائس آف امریکہ سے کہا کہ یورپ کی صورت حال بگڑتی جا رہی ہے۔ خیال یہ ہے کہ جب یہ وبا ختم ہو گی تو بہت زیادہ نقصان ہو چکا ہو گا جس کا اس وقت درست طور پر اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دنیا کی قیادت کو ابھی سے مل بیٹھ کر یہ سوچنا ہو گا کہ کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے اور اگر کوئی مشترکہ لائحہ عمل اختیار نہیں کیا گیا تو پھر دنیا کو اس وبا کے بعد بڑے پیمانے پر کساد بازاری کا سامنا کرنا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ برطانیہ میں تیزی سے یہ مرض پھیل رہا ہے جہاں وزیر اعظم سمیت بہت سے لوگ متاثر ہو چکے ہیں۔ خاص طور پر وہاں آباد غیر ملکی اس کی زد میں آ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز صرف ایک قبرستان “گارڈن آف پیس” میں اس مرض سے ہلاک ہو نے والے 17 افراد کو تدفین کے لیے لایا گیا، جب کہ آج کے لئے مزید 11 جنازوں کی تدفین کی بکنگ ہوئی ہے۔
لارڈ نذیر کا کہنا تھا کہ تعلیمی ادارے، بازار، ریستوران اور عوامی اجتماعات کی جگہیں بند ہیں۔ یہاں تک کہ یونیورسٹیوں میں داخلے کے امتحانات منسوخ کر دیے گئے ہیں، جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی اور اب یہ داخلے اساتذہ کی جانب سے دیے گئے متوقع گریڈز کی بنیاد پر ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ لندن میں ایکسل سینٹر کے بہت بڑے کمپلیکس کو آنے والے دنوں کی تیاری میں پانچ ہزار بستروں کے کرونا اسپتال میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔
لارڈ نذیر کا مزید کہنا تھا کہ لندن پبلک ٹرانسپورٹ اس مرض کے پھیلاؤ کا مرکز بن گیا ہے۔ کیونکہ ہر دو منٹ پر جو زمین دوز ٹرین یا جسے ٹیوب کہا جاتا ہے آتی تھی۔ وہ اب تیس منٹ میں آتی ہے اور لوگوں کو اپنے کام پر جانا ہوتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان ٹیوبس اور بسوں میں سوشل ڈیسٹنس یا سماجی فاصلے کا کوئی تصور ہی پیدا نہیں ہوتا اور مسافروں کے درمیان چھ انچ کا بھی فاصلہ نہیں ہوتا۔ جو اس مرض کے تیزی سے پھیلنے کا سبب بن رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماہرین کا خیال ہے کہ آئندہ دو سے تین ہفتے میں صورت حال کی سنگینی پوری طرح سے سامنے آ جائے گی۔
برسلز میں مقیم پاکستانی صحافی خالد فاروقی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اب یورپ کے چھوٹے چھوٹے ملکوں تک یہ وبا جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر چند کہ یورپ کے لوگ انتہائی احتیاطی تدابیر اختیار کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود اس کی شدت میں کمی نہیں آ رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومتیں بے بس نظر آتی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ تمام تر اختیار کے باوجود اس پر کنٹرول کی کوئی صورت نہیں ہے۔ اور یورپی حکومتیں آنے والے وقت کے لئے، جب کہ مرض کی شدت بہت بڑھ جائے گی۔ تیاریاں کر رہی ہیں۔