دو روز قبل رات دس بجے جب کرونا کی وبا سے بچاؤ کے لیے شہر بھر کی مساجد سے دی جانے والی اذانوں سےشہر گونج اٹھا تو نعمان کے والدین کو تشویش ہوئی۔ اُنہوں نے اپنے بیٹے کو آفس جانے سے منع کر دیا ہے۔ نعمان جن کا تعلق میڈیا سے ہے ان کے لیے مشکل یہ ہے کہ وہ گھر والوں کی مانیں یا آفس کی۔ یوں ایک دن کی چھٹی کے بعد وہ پھر دفتر روانہ ہو گئے۔
شمیم صدیقی ریٹائرمنٹ کے بعد اب پرائیویٹ جاب کر رہے ہیں اور لاک ڈاون کے باوجود انہیں کام کی غرض سے باہر نکلنا پڑ رہا ہے۔ لیکن آج انہیں ایک ناکے پر پولیس والوں نے یہ کہہ کر واپس گھر بھیج دیا کہ انکل آپ کی عمر اب 50 سے اوپر ہے گھرجائیں۔ جا کر آرام کریں اور فیملی کے ساتھ وقت گزاریں۔
لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد سے ہر وہ دوسرا شخص اس صورتِ حال سے گزر رہا ہے جو اپنی نوکری کے سبب باہر نکلتا ہے۔ فرقان بھی ان ہی میں سے ایک ہیں جنہیں بینک تک جانے کے لیے پولیس اور رینجرز والوں کو ہر چوک اور شاہراہ پر لگے ناکے پر اپنی شناخت کے ساتھ ساتھ آفس کال ملا کر بات بھی کرانا پڑی۔ یہ صورتِ حال ان کے لیے مشکل رہی لیکن وہ اس لیے بیزار نہیں کہ وہ سختی کو جائز سمجھتے ہیں۔
حکومتِ سندھ نے لاک ڈاؤن کے دوران اشیائے خورونوش کی دُکانوں، میڈیکل اسٹورز، دودھ اور سبزی کی دُکانیں کھلی رکھنے کی اجازت دی ہے۔ لیکن دیگر کاروباری مراکز بند ہیں۔ البتہ نئے احکامات کے تحت مذکورہ دُکانیں بھی صبح آٹھ سے رات آٹھ بجے تک ہی کھلیں گی۔
اب شہر میں چند روز کا کرفیو بھی لگ سکتا ہے جس کے بعد مزید سختی ہو جائے گی ان قیاس آرائیوں نے افراتفری میں اضافہ کر دیا ہے۔ گھر والوں نے ضروری ادویات کے لیے فکر مندی کا اظہار کیا تو میں نے سوچا کہ ایک بڑے میڈیکل اسٹور جو گھر سے 10 منٹ کی ڈرائیور پر ہے۔ وہاں سے جا کر یہ دوائیں خرید لی جائیں۔
لیکن باہر نکلتے ہی اندازہ ہوا کہ یہ مہم آسان نہیں۔ گھر سے نکلتے ہی پہلے چوک کی تمام سڑکوں کو پولیس اور رینجرز کے جوانوں نے گاڑیوں اوردیگر رکاوٹوں کی مدد سے بند کر رکھا تھا۔ جہاں سے گاڑیاں اور موٹر سائیکل سواروں کو واپس مڑنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ سو مجھے بھی منزل تک پہنچنے کے لیے گلیوں میں مڑنا پڑا۔
اہم شاہراہیں چونکہ سنسان ہیں اس لیے گلیوں سے جو راستے مساجد کی طرف جاتے ہیں وہاں سبزی او ر پھل فروش آ بیٹھے ہیں۔ تاکہ مساجد کی طرف آنے والے ان سے خریداری کر سکیں۔
اندر جو مارکیٹس ہیں ان میں زندگی اب بھی رواں دواں ہے۔ خاص کر نوجوانوں پر شاید اس وائرس کا کوئی خوف نہیں اس لیے وہ کرکٹ کھیلنے میں مصروف دکھائی دیے۔ میں ان نوجوانوں کی غیر سنجیدگی سے متعلق سوچ ہی رہی تھی کہ میرے سامنے ہی منظر یکسر تبدیل ہو گیا۔
رینجرز کی ایک موبائل جو غالباً گشت پر تھی وہاں پہنچی اور انہوں نے کرکٹ کے شوقین نوجوانوں کو ڈنڈوں سے پیٹنا شروع کر دیا۔ یہ منظر ارد گرد کے ان شہریوں کے لیے بھی وارننگ ہی ثابت ہوا ہو گا۔ جو کرکٹ کھیلنے کا سوچ رہے ہوں گے۔
گلیوں سے نکلنے اور کئی رکاوٹیں عبور کرنے کے بعد میں ایک گھنٹے کے بعد میڈیکل اسٹور پہنچی جہاں سے ضروری ادویات لینے کے بعد اب واپسی کی مہم بھی شروع کرنی تھی۔
یہاں سے بھی واپسی پر پیٹرول پمپس پر گاڑیوں اور موٹر سائیکل سواروں کی قطاریں نظر آئیں۔ وہی مرکزی شاہراہیں رکاوٹیں لگا کر بند ملیں۔ اور پھر سے کچھ نوجوانوں کو لاک ڈاون کی خلاف ورزی کرنے پر سزائیں ملتے دیکھا۔
جن راستوں سے میں گزر کر آئی تھی وہاں گوشت اور کریانے کی دکانیں کھلی ہوئی تھیں لیکن اب گھنٹہ بھر میں سب بند ہو چکا تھا۔ رینجرز کے جوان جگہ جگہ موبائل سے اترتے اور دکانیں بند کراتے دکھائی دیے۔
ٹولیوں کی صورت میں بیٹھے یا کھڑے نوجوانوں کو پہلے سختی سے سمجھایا جاتا اور گھروں کو واپس بھیجا جارہا تھا۔ سب سے مشکل صورتِ حال گھر کے قریب کے راستے بند ہونے کے سبب مختلف گلیوں سے نکلنے کا راستہ اختیار کرنا تھا۔
جو کہیں نہ کہیں جاکر بند ملتیں اور پھر واپس اسی جگہ آنا پڑتا جہاں سے داخل ہوئے تھے۔ تین ناکوں پر مجھے جا کر رینجرز کے جوانوں سے کہنا پڑا کہ اگر ممکن ہوسکے تو یہ راستہ کھول دیں تاکہ میں گھر پہنچ سکوں۔
انہوں نے کہا کہ ہم آپ کی مشکل سمجھ سکتے ہیں لیکن اگر آپ کے لیے یہ رکاوٹ ہٹا کر آپ کو جانے دیتے ہیں تو پھر آس پاس کھڑے لوگوں کو بھی راستہ دینا پڑ جائے گا جو ممکن نہیں۔
یہ تو طے ہے کہ آپ کے پاس شناختی کارڈ ہو یا ادویات لینے کے لیے ڈاکٹر کا تجویز کردہ نسخہ، رعایت کسی صورت نہیں۔ جو راستہ بند ہے وہاں سے گاڑی کا گزرنا ناممکن ہی ہے۔
اس صورت میں اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اسے قریب ہی جانا ہے تو وہ یوں گیا اور یوں آیا اسے یہ سوچ بدلنا ہو گی۔ تو جو لوگ بھی باہر نکلیں ان کی گاڑی میں پیٹرول پورا ہونا چاہیے اور برداشت بھی اتنی زیادہ کہ وہ ایسی مشکل صورتِ حال پر گھبراہٹ کا شکار ہونے کے بجائے سوچ سمجھ کر فیصلہ لے سکیں۔
باہر جو سختی کا ماحول میں نے ڈھائی گھنٹے میں دیکھا وہ ظاہر کرتا ہے کہ عوام ابھی اس سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہی جس کی اشد ضرورت ہے۔ ان سب حالات کو دیکھتے ہوئے اب بہت سے لوگ کرفیو کو ہی واحد حل سمجھ رہے ہیں۔
جس پر پہلے ہی سندھ حکومت اشارہ دے چکی ہے۔ لیکن لاک ڈاون ہو یا کرفیو کرونا سے بچنے کا واحد حل احتیاط اور گھروں میں محدود رہنا ہی ہے جو صرف ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے۔