آسٹریلیا کی نیشنل سائنس ایجنسی (CSIRO) کی ایک نئی تحقیق میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ کرونا وائرس آپ کے موبائل فونز اور کرنسی نوٹ سمیت مختلف سطحوں پر 28 دن تک رہ سکتا ہے۔
جریدے 'وائرولوجی جرنل' میں شائع ہونے والی تحقیق میں آسٹریلیا کی قومی سائنس ایجنسی کے محققین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس انتہائی مضبوط اور توانا ہوتا ہے۔
محقیقین نے کرونا وائرس کو اندھیرے میں تین مختلف درجہ حرارت پر ٹیسٹ کیا جس سے پتا چلا کہ جیسے جیسے درجہ حرارت بڑھتا گیا، کووڈ-19 جلد ختم ہوتا گیا۔
سائنس دانوں کو ان تجربات سے پتا چلا ہے کہ 20 سینٹی گریڈ کے درجہ حرارت پر شفاف سطحوں پر کرونا وائرس بہترین پھلتا پھولتا ہے اور موبائل فونز کی اسکرینوں کے علاوہ شیشے، اسٹیل اور کرنسی نوٹوں پر 28 دنوں تک رہ سکتا ہے۔
محقیقین کا کہنا ہے کہ تیس ڈگری سینٹی گریڈ پر اس وائرس کی زندگی ایک ہفتے رہ جاتی ہے اور 40 سینٹی گریڈ پر یہ صرف ایک دن تک رہ سکتا ہے۔
غیر شفاف سطحیں جیسے کاٹن میں کم درجہ حرارت پر یہ 14 دن تک رہ سکتا ہے مگر زیادہ درجہ حرارت میں یہ 16 گھنٹے ہی رہ پاتا ہے۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق یہ انکشاف پہلے کی جانی والی تحقیق کے نتائج سے کہیں زیادہ ہے۔ اس سے پہلے خیال کیا جاتا تھا کہ کرونا وائرس غیر شفاف سطحوں پر صرف چار دن تک ہی زندہ رہتا ہے۔
یاد رہے کہ دنیا بھر میں کرونا کیسز کی تعداد تین کروڑ 74 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور دس لاکھ 75 ہزار سے زیادہ اموات رپورٹ ہو چکی ہیں۔
کرونا سے متاثرہ ملکوں کی فہرست میں امریکہ 77 لاکھ کیسز کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے۔ بھارت میں کیسز کی تعداد 70 لاکھ سے زیادہ اور اموات کی تعداد بھی ایک لاکھ سے زیادہ ہے۔
آسٹریلیا کے سینٹر فار ڈیزیز پری پیریڈنس کے ڈائریکٹر ٹریور ڈریو کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس تحقیق کے لیے بہت حساس طریقۂ کار استعمال کیا ہے اور اس تحقیق میں دیکھا گیا ہے کہ وائرس سیلز کو متاثر کرنے میں کامیاب رہا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ "اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ وائرس کی یہ تعداد کسی انسان کو متاثر کرنے کے لیے کافی ہے۔"
ٹریور ڈریو کے مطابق اگر کوئی شخص کرنسی نوٹ یا موبائل فونز جیسی چیزوں کے بارے میں زیادہ احتیاط نہیں کرتا اور ان کو چھوتا اور زبان، ناک یا آنکھوں پر ہاتھ لگاتا ہے تو اس بات کا امکان ہے کہ ان چیزوں پر وائرس کے لگنے کے دو ہفتوں کے بعد بھی وہ بیمار ہو سکتے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ اگرچہ اس تحقیق میں وائرس کی ایک خاص تعداد کا استعمال ہوا ہے جو کسی کو بیمار کرنے کے لیے کافی ہے۔ تاہم تحقیق میں سورج کی الٹرا وائلٹ شعاعوں کا استعمال نہیں کیا گیا جو وائرس کو جلد مار دیتی ہیں۔