دنیا کے کئی ممالک میں کرونا وائرس کے مزید مریض سامنے آنے کے بعد وائرس کو مزید پھیلنے سے روکنے کے لیے انتظامات جاری ہیں۔
رواں ہفتے یورپ اور مشرقِ وسطیٰ میں کرونا سے متاثرہ افراد کے سامنے آنے کے بعد وائرس سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں فیکٹریاں بند، بازار ویران اور تجارتی سرگرمیاں معطل ہیں۔
کرونا وائرس کا آغاز گزشتہ سال دسمبر کے آخر میں چین کے شہر ووہان سے ہوا تھا اور اب تک وائرس کے سب سے زیادہ مریض بھی چین میں رپورٹ ہوئے ہیں۔
چین کے حکام نے بدھ کو بتایا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مزید 406 مریضوں میں وائرس کی تشخیص ہوئی ہے جب کہ 52 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
وائرس کے آغاز کے بعد سے چین میں اب تک کرونا کے 78604 کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں جب کہ وائرس کا شکار ہونے والے 2715 افراد کی جان گئی ہے۔
دنیا کی مختلف حکومتوں کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق بدھ تک مختلف ملکوں میں وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 81 ہزار تک جا پہنچی ہے جس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
ایشیائی ملکوں میں چین کے بعد وائرس سے سب سے زیادہ متاثر جنوبی کوریا ہوا ہے جہاں کی حکومت نے بدھ کو مزید 284 افراد کے وائرس میں مبتلا ہونے کی تصدیق کی ہے۔
حکام کے مطابق جنوبی کوریا میں اب تک 1261 افراد کرونا سے متاثر ہوچکے ہیں جن میں سے بیشتر کیسز 25 لاکھ آبادی کے شہر ڈائیگو میں رپورٹ ہوئے ہیں۔
جنوبی کوریا میں تعینات ایک امریکی فوجی میں بھی کرونا وائرس کی تشخیص ہوئی ہے جس کے بعد جنوبی کوریا میں موجود امریکہ کے چاروں بڑے فوجی اڈوں پر تمام تفریحی مقامات اور کھیلوں کے میدان بند کردیے گئے ہیں۔
جنوبی کوریا کی فوج کا کہنا ہے کہ چھاؤنیوں میں مقیم 20 افراد میں کرونا کی تشخیص ہوئی ہے جب کہ ساڑھے نو ہزار سے زائد افراد کو قرنطینہ میں رکھا گیا ہے۔
یورپ میں جرمنی، فرانس اور اسپین میں بھی وائرس کے مزید مریض سامنے آئے ہیں۔ کرونا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک اٹلی ہے جہاں کے شمالی علاقے میں اب تک 200 سے زائد افراد میں وائرس کی تشخیص ہوچکی ہے۔
مشرقِ وسطیٰ میں بحرین، کویت اور عراق میں بھی کرونا کے کئی کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں۔ تینوں ملکوں کے حکام نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ان کے ہاں یہ وائرس ایران سے آیا ہے۔
ایرانی حکام نے اب تک 139 افراد میں کرونا کی تشخیص کا دعویٰ کیا ہے۔ لیکن بین الاقوامی ماہرین کا کہنا ہے کہ مریضوں کی تعداد کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔
فقہ جعفریہ سے تعلق رکھنے والے مسلمان دنیا بھر سے مقاماتِ مقدسہ کی زیارت کے لیے ایران جاتے ہیں اور اس وقت بھی ایران میں ہزاروں غیر ملکی زائرین موجود ہیں۔
ماہرینِ صحت کا کہنا ہے کہ زائرین کی اپنے آبائی ملکوں کو واپسی کے باعث وائرس مزید کئی ملکوں تک پھیل سکتا ہے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایشیا اور افریقہ کے غریب اور پسماندہ ملکوں میں وائرس پہنچنے کی صورت میں کوئی بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے کیوں کہ ان ممالک کے پاس کسی بڑے وبائی مرض سے بچاؤ کے لیے وسائل دستیاب نہیں۔
کہ میں سائنس دانوں نے کہا ہے کہ کرونا کے علاج کی ممکنہ ویکسین کا ریاست نیبراسکا میں واقع ایک اسپتال میں آزمائشی استعمال شروع کردیا گیا ہے۔
تاہم ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ وائرس کا حتمی علاج دریافت ہونے میں اب بھی مہینوں لگ سکتے ہیں۔
چین سمیت دنیا کے کئی دیگر ملکوں میں بھی کرونا کی ویکسین کا آزمائشی استعمال جاری ہے تاہم اب تک کسی نے بھی علاج دریافت ہونے کا دعویٰ نہیں کیا ہے۔