رسائی کے لنکس

کرونا وائرس: کراچی کا علاقہ لیاری 'ہاٹ اسپاٹ' کیوں بنا؟


فائل
فائل

کراچی شہر کی گنجان ترین اور قدیم بستی، لیاری ان دنوں کھیلوں، سیاسی گرمی یا گینگ وار کی لڑائی کے باعث نہیں بلکہ کرونا وائرس کے تیزی سے پھیلاو کی بنا پر خبروں میں ہے۔

یہاں صرف چند ہی دنوں میں 245 سے زائد کرونا وائرس کے کیسز سامنے آئے ہیں۔ ان میں وہاں سے منتخب رکن صوبائی اسمبلی سید عبدالرشید اور ان کے اہل خانہ کے علاوہ بزرگ، خواتین حتیٰ کہ بچے بھی شامل ہیں۔ اور اس تعداد میں ہر گزرتے دن کے ساتھ تیزی دیکھی جا رہی ہے۔

محکمہ صحت کے افسران کے مطابق، سب سے زیادہ کیسز لیاری کی بہار کالونی اور بغدادی کی یونین کمیٹیوں میں سامنے آئے ہیں، جہاں ان مریضوں کی تعداد درجنوں میں بتائی جاتی ہے۔ صرف بدھ کے روز ہی شہر کے ضلع جنوبی میں 72 کیسز سامنے آئے ہیں، جن میں سے بیشتر کا تعلق لیاری سے بتایا جاتا ہے۔

2017 کی مردم شماری کے مطابق، 6 لاکھ 62 سے زائد نفوس پر مشتمل لیاری کا علاقہ زیادہ تر غریب اور متوسط طبقے پر مشتمل ہے، جہاں آبادی کی کثافت شہر کے دیگر علاقوں سے کہیں زیادہ ہے۔ اور زیادہ تر لوگ غیر منظم منصوبہ بندی کے ساتھ قائم آبادیوں میں جینے پر مجبور ہیں۔ جہاں زیادہ تر چھوٹے گھر، تنگ گلیاں اور گنجان آبادی ہے اور بنیادی سہولیات کے فقدان کے باعث زندگی ویسے ہی مشکل ہے۔

رکن قومی اسمبلی عبدالشکور شاد کے بقول، "نہ عوام نے سنجیدگی دکھائی نہ ہی حکومت نے لاک ڈاون پر عمل درآمد کرایا"۔

عبدالشکور شاد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ لیاری کے عوام نے کرونا کے پھیلاو کو سنجیدہ نہیں لیا، جس کا نتیجہ اب سب کے سامنے ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں کے رہائشی بہت سے لوگ یہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ جس بیماری کا وہ صرف سن رہے ہیں انہیں بھی لاحق ہوسکتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ جس تیزی کے ساتھ یہ وائرس علاقے میں پھیلا ہے وہ یقیناً باعث تشویش ہے اور اس کا کوئی نہ کوئی حل نکالنا ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر بڑے پیمانے پر یہاں ٹیسٹ کئے جائیں تو خدشہ ہے کہ اس سے کہیں بڑی تعداد میں کرونا وائرس کا شکار لوگ سامنے آسکتے ہیں۔

شکور شاد اپنے حلقہ انتخاب میں وائرس کے پھیلاو کی ذمہ دار صوبے میں برسر اقتدار پیپلز پارٹی کی حکومت کو ٹھہراتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس معاملے کو صحیح طریقے سے نمٹا نہیں گیا۔

ان کے بقول، ''صوبائی حکومت کی جانب سے محض نام نہاد لاک ڈاون کیا گیا، علاقے میں زندگی معمول کے مطابق ہی رواں دواں نظر آئی اور پولیس کی جانب سے لاک ڈاون پر عمل درآمد کرانے میں سستی کا مظاہرہ کیا گیا؛ اور کہیں موثر عملدرآمد نظر نہیں آیا، جس کی وجہ سے صورتحال مزید گھمبیر ہوئی''۔

تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے، عبدالشکور شاد اپنی ہی جماعت کے چئیرمین اور وزیر اعظم عمران خان کے برعکس یہ کہتے ہیں کہ اس وبا کا فی الحال حل مکمل اور سخت لاک ڈاون میں ہے، جو نہیں کیا گیا۔

ان کے مطابق، لیاری میں صرف چند سڑکوں کی بندش سے لاک ڈاون نہیں ہو سکتا، بلکہ گلی محلوں میں بیٹھنا، کرکٹ، فٹبال اور کیرم کھیلنا یہاں کے کلچر کا حصہ ہے، جہاں سماجی دوری کا تصور ناپید ہے۔ بھیانک نتائج سے بچنے کے لئے وہاں بھی سختی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

ادھر، کمشنر کراچی افتخار شہلوانی کا کہنا ہے کہ لیاری ہمارے لئے ایک ہاٹ سپاٹ بنا ہوا ہے، لیکن انتظامیہ وہاں پر الرٹ ہے اور کوشش کر رہی ہے کہ وہاں وبا کے پھیلاو کو ہر صورت روکا جا سکے۔

ان کا کہنا ہے کہ کرونا کے مثبت آنے والے لیاری کے رہائشیوں کو ہسپتالوں کے ساتھ کراچی کے ایکسپو سینٹر میں قائم فیلڈ ہسپتال میں بھی آئسولیشن میں رکھا گیا ہے، جہاں ان کا علاج چل رہا ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ لیاری میں کرونا وائرس کی وبا کو کنٹرول کرنے کے لئے بڑا چیلنج کیا ہے، کمشنر کراچی نے بتایا کہ لوگ خوف کے باعث اپنا ٹیسٹ کرانے سے کترا رہے ہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ اگر ان کا کرونا ٹیسٹ مثبت آگیا تو پولیس انہیں اٹھا کر لے جائے گی۔ لیکن، انتظامیہ کی جانب سے لوگوں کو اس بات پر قائل کیا جا رہا ہے کہ مرض کی تشخیص کا مطلب کسی کی گرفتاری نہیں، بلکہ ان کا علاج ہے، تاکہ مریض جلد صحتیاب ہو اور ساتھ ہی اس وبا کو پھیلاو سے روکا جا سکے۔

واضح رہے کہ گزشتہ چند روز میں ایسی کئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر آئیں جن میں دیکھا گیا کہ لیاری میں پولیس اور رینجرز کو بازار بند کرانے میں زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور کئی مواقع پر شہریوں اور قانون نافذ کرنے والوں کے درمیان تلخ کلامی کے ساتھ ہاتھاپائی بھی ہوئی، جس پر کئی شہریوں کی گرفتاری اور مقدمات کا اندراج بھی ہوا ہے۔

کمشنر کراچی نے اس بات سے اتفاق کیا کہ علاقے میں وائرس کے کنٹرول کے لئے پولیسنگ ایک چیلنج ضرور ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ لاک ڈاون پر عملدرآمد کرانے میں پولیس نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ورنہ صورتحال مزید گھمبیر ہو سکتی تھی۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG