پاکستان میں کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے پہلے کیس کی تصدیق
پاکستان میں کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے پہلے کیس کی سرکاری طور پر تصدیق ہو گئی ہے۔
ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں چار روز قبل سامنے آنے والے کیس کے حوالے سے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) نے اب تصدیق کی ہے کہ یہ اومیکرون کا ملک میں رپورٹ ہونے والا پہلا کیس ہے۔
این سی او سی کے مطابق اسلام آباد کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ نے تصدیق کی ہے کہ کراچی میں سامنے آنے والے مشتبہ کیس اومیکرون کا ہی ہے۔
این سی او سی کا مزید کہنا ہے کہ ملک میں امیکرون کے پہلے کیس کے بعد نگرانی کا عمل جاری ہے اور نمونے جمع کیے جا رہے ہیں تاکہ اس حوالے سے رجحانات پر نظر رکھی جا سکے۔
این سی او سی نے شہریوں کو بھی متنبہ کیا ہے کہ وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ ویکسین لگوائیں تاکہ وبا کے خطرات سے محفوظ رہا جا سکے۔
جمعرات کو صوبۂ سندھ کے محکمۂ صحت نے اپنے ایک بیان میں اومیکرون کی تشخیص کے بارے میں بتایا تھا۔ بعدازاں صوبائی وزیرِ صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے اسے مشتبہ کیس قرار دیا تھا۔
ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ابھی اس کیس کا مطالعہ کیا جا رہا ہے البتہ جس طریقے سے اس کا برتاؤ دیکھا گیا ہے اس سے لگتا ہے کہ یہ وائرس اومیکرون ہی ہے۔
کئی امریکی ریاستوں میں اومیکرون کی تصدیق
امریکہ میں چند روز پہلے تک جنوبی افریقہ میں کرونا وائرس کی نئی دریافت ہونے والی جینیاتی قسم اومیکرون موجود نہیں تھی، لیکن جمعرات کے اختتام تک کم از کم پانچ ریاستوں میں اس کی نشاندہی ہو چکی ہے۔ اس سے ایک بار پھر یہ ظاہر ہوا ہے کہ وائرس کی تبدیل شدہ ہیئت کتنی تیزی اور آسانی سے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
امریکہ میں پہلے کیس کی تصدیق کیلی فورنیا میں ہوئی۔ اس کے بعد کیے جانے والے لیبارٹری ٹیسٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ کووڈ-19 کی اس نئی قسم اومیکرون نے نیویارک کے میٹروپولیٹن علاقے میں کم ازکم پانچ افراد کو متاثر کیا ہے۔ اس کے علاوہ ریاست منی سوٹا کا ایک شخص بھی اس کی زد میں آ چکا ہے جس نے نومبر میں نیویارک کے علاقے مین ہیٹن میں ایک کنونشن میں شرکت کی تھی۔
حکام نے بتایا کہ وائرس کی اس نئی قسم سے متاثر ہونے والوں میں کولوراڈو کی ایک خاتون، جس نے حال ہی میں جنوبی افریقہ کا سفر کیا تھا، ہوائی کا ایک شہری، جو حالیہ عرصے میں اپنے علاقے سے باہر کہیں بھی نہیں گیا تھا، اور کیلی فورنیا کا ایک اور رہائشی، جس نے گزشتہ ماہ جنوبی افریقہ کا سفر کیا تھا، شامل ہیں۔
ابھی تک اومیکرون کے بارے میں بہت کچھ واضح نہیں ہے۔ مثلاً یہ کہ آیا یہ بھی زیادہ تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے جیسا کہ صحت کے کچھ ماہرین کو خدشہ ہے۔ ابھی یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ کرونا ویکسین اس کے خلاف کتنی مؤثر ہے، اور یہ کہ یہ ویریئنٹ بھی لوگوں کو اتنا ہی شدید بیمار کر سکتا ہے جیسا کہ پہلے پہل ظاہر ہونے والے کرونا وائرس نے کیا تھا۔
'اومیکرون' قسم سامنے آنے کے بعد بھارت میں کرونا کی تیسری لہر کے خدشات
بھارت میں ایک طرف جہاں کرونا مثبت کیسز میں کافی کمی آئی ہے اور منگل کو صرف چھ ہزار کیسز ہی سامنے آئے وہیں دوسری طرف نئے ویریئنٹ اومیکرون کی دستک اور کرونا کی تیسری لہر کے پہلے سے موجود انتباہ نے حکومت اور عوام کو خوف میں مبتلا کر رکھا ہے۔
اس سلسلے میں مرکزی حکومت کی جانب سے ریاستی حکومتوں کو نئی ہدایات جاری کی گئی ہیں اور عوام کو بھی کرونا گائیڈ لائنز کی پابندی کی ہدایت دی گئی ہے۔
مرکزی محکمہ صحت میں سیکریٹری راجیش بھوشن نے منگل کو تمام ریاستوں کے نمائندوں کے ساتھ ایک جائزہ میٹنگ کی اور انہیں مشورہ دیا کہ وہ کیسز کی شناخت کے لیے ٹیسٹنگ تیز کریں۔
حکومت نے خطرات کے زمرے والے ممالک کی نشان دہی کی ہے جن میں جنوبی افریقہ، چین، بوتسوانا، برطانیہ، برازیل، اسرائیل، بنگلہ دیش، ماریشس، نیوزی لینڈ، زمبابوے، سنگاپور اور ہانگ کانگ شامل ہیں۔
کرونا وائرس کی نئی قسم 'اومیکرون' کے بارے میں کیا جاننا ضروری ہے؟
دنیا بھر میں کرونا وائرس کے کیسز میں کمی کے بعد زندگی کچھ حد تک معمول کی طرف لوٹنا شروع ہوئی تھی کہ جنوبی افریقہ میں کرونا کی نئی قسم 'اومیکرون' کے انکشاف کے بعد ایک مرتبہ پھر مختلف ممالک وائرس سے بچاؤ کے اقدامات اٹھاتے ہوئے مختلف پابندیاں عائد کر رہے ہیں۔
جاپان اور اسرائیل نے اپنے ممالک کی سرحدیں غیر ملکیوں کے لیے بند کر دی ہیں۔دیگر کئی ملکوں نے جنوبی افریقہ سے آنے والی پروازوں پر پابندی لگا دی ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون سب سے پہلے جنوبی افریقہ میں پائی گئی جس کے بعد آسٹریلیا، بیلجئم، برطانیہ، کینیڈا، ڈنمارک، فرانس، جرمنی، ہانگ کانگ، اسرائیل، اٹلی، بوٹسوانا اور نیدرلینڈ میں بھی یہ ویرینٹ پایا گیا ہے۔
جنوبی افریقہ کے سائنس دانوں نے اس قسم سے متعلق عالمی ادارۂ صحت کو آگاہ کیا تھا جس کے بعد جمعے کو عالمی ادارۂ صحت نے اسے 'تشویش ناک قسم' قرار دیا۔
کرونا کی اس نئی قسم کا نام یونانی حروف سے اخذ کیا گیا ہے جب کہ عالمی ادارۂ صحت نے اس کی شدت کے بارے میں کہا ہے کہ اسے سمجھنے کے لیے 'کچھ دنوں سے ہفتے' لگ سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ اس سے قبل کرونا وائرس کے سامنے آنے والے ویرینٹ کو ڈبلیو ایچ او نے الفا، بیٹا اور ڈیلٹا کا نام دیا تھا جن میں سے سب سے زیادہ ڈیلٹا قسم مہلک ثابت ہوئی تھی۔