- By گیتی آرا
بالی وڈ کا شہر، کرونا وائرس اور پاکستانی مسافر
بحرالکاہل کے پانیوں کو چھوتی امریکی ریاست کیلیفورنیا اور پھر اس کا شہر لاس اینجلس فلمی ستاروں کی گہما گہمی اور ہالی ووڈ کی چکاچوند کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ مگر گیارہ مارچ کو میں جب یہاں پہنچی تو باقی ماندہ امریکہ کی طرح یہاں بھی کرونا وائرس کا ہیجان اپنے پنجے گاڑ رہا تھا۔
ہینڈ سینیٹائزرز کی بوتلیں اس کے ایئرپورٹ پر ہی آپ کا استقبال کرتی ہیں جہاں آتا جاتا ہر شخص ان سے ہاتھ ضرور صاف کرتا ہے۔
ایئر پورٹ سے باہر نکلے تو یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ سڑکوں پر کاروں کی تعداد عام دنوں سے بہت کم تھی اور لاس اینجلس کی چوڑی سڑکیں خالی ہونے کے بعد اور بڑی اور ویران معلوم ہو رہی تھیں۔
اسے ہماری کوتاہ نظری کہیے یا مزاج، لیکن ایک پاکستانی جو مسافر ہو، اپنے ساتھ میڈیکل انشورنس کم ہی رکھتا ہے۔ ایسے میں جب سنا کہ کیلیفورنیا میں کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد ساڑھے تین سو سے تجاوز کر گئی ہے اور ایک ہلاکت بھی واقع ہو چکی ہے تو سب سے پہلے دل یہی چاہا کہ خود پر ہی برہم ہو لیں کہ آخر ہم آیے ہی کیوں؟
خیر بات صرف مریضوں کی تعداد تک محدود نہیں ہے۔ شہر کا تو جیسے نقشہ ہی بدلا ہوا ہے۔ میں چونکہ لاس اینجلس پہلے بھی آ چکی ہوں اس لیے بخوبی آگاہ ہوں کہ اس شہر کہ رونقیں اور آب و تاب کیا ہوتی ہے۔ لیکن لاس اینجلس کاؤنٹی میں مریضوں کی 35 سے بھی زیادہ تعداد اور اس پر امریکہ صدر کی جانب سے ایمرجنسی کے اعلان کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے سپر مارکیٹس اور سٹوروں کے اندر اور باہر لوگوں کی لمبی قطاریں دیکھی جا سکتی ہیں۔
ٹی وی اور سوشل میڈیا فورمز پر ایک ہی تذکرہ ہے اور وہ ہے کرونا وائرس۔ ایک خاتون جس کا نام جولیانہ تھا، ایسی ہی ہیجانی کیفیت کا شکار مجھے ایک سپر مارٹ پر ملی جہاں میں اپنے میزبانوں کے ساتھ سامان کی ٹرالی گھسیٹ رہی تھی اور قطار ہر دس منٹ بعد صرف چند انچ آگے بڑھتی تھی۔
جولیانہ کا کہنا تھا کہ اس کا سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ وہ اپنے بچوں کو کام پر جانے سے پہلے کہاں چھوڑے گی؟ کیونکہ ایمرجینسی کے حکومتی اعلان کے بعد اسکولوں کو بند کیا جا رہا تھا اور وہ ایک اسٹور پر روانہ اجرت پر کام کرتی ہے۔
میرے لیے یہ سب اجنبی تھا کیونکہ نہ تو میں امریکی شہری ہوں اور پاکستانیوں کا ایک خاص مزاج ہے جو کہ شاید قابل تعریف نہ ہو لیکن ہم پریشان بہت دیر سے ہوتے ہیں۔ اکثر یہی خیال رہتا ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، جو شاید مناسب خیال نہ ہو پر عادتوں کا کیا کیجے؟
مارکیٹوں میں ٹرالیاں تلاش کرتے لوگ، فون پر گھبرا کر کھانے کی اشیا کے ساتھ ٹوائلٹ پیپر اور سینٹائزر اٹھانے کی ہداہت لیتے لوگ مجھے کچھ عجیب لگے۔ لیکن وہ غلطی پر نہیں تھے کیونکہ جلد ہی بہت سی دکانوں کے بند ہونے کی اطلاع بھی ملی۔
لاس اینجلس کی معروف تفریح گاہیں یعنی یونیورسل اسٹوڈیوز اور ڈزنی پارک بند ہو چکے ہیں۔
اتوار کو چلتے چلتے ساحل پر پہنچے تو دیکھا کہ چند من چلے پیراکوں اور سرفرز کے سوا وہاں خال خال ہی کوئی موجود ہے۔ یہی ایک تفریح ہماری بھی سمجھ میں آئی کہ ہجوم سے بچ کر چند منٹ سکون کے گزارے جائیں۔ لیکن سمندر کی لہریں بھی پریشانی کم نہیں کر سکیں اب تو بس یہی خیال تھا کہ واپس گھر پہنچا جائے۔ اوور لووڈ ہونے کی وجہ سے آن لائن ٹکٹنگ فورم نہ میل کا جواب دے رہے ہیں نہ فون کالز کا۔
پریشانی کا سامنا ہو تو لوگ عام طور اپنی عبادت گاہوں کا رخ کرتے ہیں۔ لیکن کرونا وائرس چونکہ ایک مہلک وبا ہے، اس لیے اس پریشانی سے چھٹکارے کے لیے وہاں جانا بھی مناسب نہیں۔ حکومت عبادت گاہوں کو بند تو نہیں کر سکتی لیکن اس کی یہی اپیل ہے کہ اجتماعات سے پرہیز کیا جائے۔
جب کہ دلہنوں کے تیارجوڑے دکانوں پر واپس پہنچ رہے ہیں، کیونکہ تقریبات چاہے کانسرٹ ہو۔ کانفرنس یا شادی کا اجتماع سب پر پابندی ہے۔ میں پاکستان،امریکہ اور دنیا بھر میں ہوائی سفر سے متعلق معلومات اکٹھا کر رہی ہوں۔ ظاہر ہے مسافر کو اپنے گھر واپس بھی تو جانا ہے۔ ویسے ایسے موقع پر کوئی شعر شاید ہی سوجھے مگر میرے دماغ میں۔ یہی مصرعہ آتا ہے۔ 'چل خسرو گھر اپنے سانجھ بھئی چو دیس' ۔
بڑی عمر کے افراد کو کرونا وائرس سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے
کرونا وائرس میں اسی سال سے زیادہ عمر کے افراد میں موت کی شرح 15 فیصد ہے۔ ذیابطیس، دل اور پھیپھڑوں کے مریض سب سے زیادہ خطرے میں ہیں۔
عمر رسیدہ افراد کرونا وائرس سے بچنے کے لیے کیا احتیاطیں کریں؟
بیمار افراد کے قریب جانے سے پرہیز کریں۔
آنکھ، ناک اور منہ کو چھونے سے پرہیز کریں۔
بیمار ہونے کی صورت میں گھر میں ہی رہیں۔
کھانسی اور چھینکیں ٹشو پیپر سے ڈھانپیں اور اسے کوڑے دان میں پھینک دیں۔
مسلسل استعمال کی چیزوں اور سطحوں کو صاف کرتے رہیں۔
ہاتھ مسلسل دھوتے رہیں۔
نمونیا اور فلو کی ویکسین لگوا لیں۔
غیر ضروری طور پر کسی اسپتال نہ جائیں۔
سماجی میل جول میں فاصلہ کر لیں
ریاست نیوجرسی نے رات کے سفر پر پابندی لگا دی
امریکی ریاست نیوجرسی نے کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں یکایک 80 کے اضافے کے بعد مزید سخت اقدامات کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان اقدامات کے تحت رات آٹھ بجے سے صبح پانچ بجے تک غیرضروری سفر پر پابندی لگا دی ہے۔
ریاست کے گورنر نے لوگوں سے کہا ہے کہ وہ وائرس سے بچنے کے لیے سماجی رابطوں میں کمی کریں اور بڑے اجتماعات سے گریز کریں۔ اور اس سلسلے میں صحت کے حکام کی ہدایات پر عمل کریں۔
نیوجرسی میں کرونا سے متاثرہ افراد کی تعداد 178 ہو گئی ہے۔
یورپی شہریوں پر سفر پر پابندی
یورپی ملکوں کے رہنماؤں نے شہریوں کے غیر ضروری سفر پر پابندی کا اعلان کیا ہے جس کا مقصد کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنا بتایا جاتا ہے۔
کرونا وائرس کے خدشے کے پیشِ نظر یورپی ملکوں نے پہلے ہی اپنی سرحدیں بند کر رکھی ہیں۔
دنیا بھر میں چین کے بعد یورپی ملک اٹلی کرونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہے جہاں اب تک دو ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ دنیا بھر میں کرونا وائرس لگ بھگ سات ہزار افراد کی جانیں لے چکا ہے۔
فرانس کے صدر ایمانوئیل میخواں نے کرونا وائرس کی روک تھام کے لیے کی جانے والی کوششوں کو جنگ سے تعبیر کیا اور کہا کہ شہریوں پر 30 روز کے لیے یورپ سے باہر اور یورپی ملکوں کا سفر کرنے پر پابندی ہو گی۔
قوم سے اپنے خطاب میں میخواں نے کہا کہ تمام شہری منگل کی شام سے 15 روز کے لیے گھروں پر ہی رہیں اور اس دوران تمام سماجی رابطے اور غیر ضروری سفر ترک کر دیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ پابندی کی خلاف ورزی قابلِ سزا جرم ہو گا۔