قومی اسمبلی کا حلقہ 248لیاری، کراچی کا وہ حلقہ ہے جو گزشتہ تین سالوں سے کسی نہ کسی حوالے سے شہ سرخیوں میں رہا ہے۔ یہ شروع ہی سے پاکستان پیپلز پارٹی کا گڑھ رہا ہے، حتیٰ کہ گزشتہ انتخابات میں عام رائے یہ ہوا کرتی تھی کہ متحدہ کراچی کی سب سیٹیں جیت سکتی ہے ۔۔۔سوائے لیاری کے۔ لیکن، حالات بتارہے ہیں کہ اس بار پیپلز پارٹی کے لئے بھی لیاری کی نشست ’تر نوالہ‘ ثابت نہیں ہوگی۔
اس علاقے سے اس بار پی پی کا کوئی بھی بڑا سیاست دان میدان میں نہیں ہے۔ اس کے بجائے پی پی پی نے پیپلز امن کمیٹی سے تعلق رکھنے والے تین افراد کو قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر انتخاب لڑنے کے لئے ٹکٹس دیئے ہیں۔ لیکن، ان تینوں افراد کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ پی پی سے زیادہ پیپلز امن کمیٹی اور اس کے رہنما عذیر بلوچ کے جانثار ہیں۔
خود عذیر بلوچ نے انگریزی اخبار’ ٹریبیون‘ کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے،’مجھے پی پی پی پر اعتبار نہیں رہا۔ نہ ہی میں اس پارٹی کا کبھی ممبر رہا ہوں اور نہ مستقبل میں ایسا کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔‘
دراصل، لیاری میں ہونے والے حالیہ پولیس آپریشنز اور پیپلز امن کمیٹی کے رہنماوٴں کے خلاف مقدمات سے یہاں کے لوگ پیپلز پارٹی سے سخت نالاں ہیں۔ پی اے سی نے پی پی کارکنوں کا علاقے میں داخلہ تک بند کردیا ہے۔ اب تو یہ لوگ مستقبل میں بلاول بھٹو کی جانب سے لیاری کی نشست سے انتخاب لڑنے کے بھی مخالف ہیں۔
لوگوں کو شکایت ہے کہ پی پی پی کو اب لیاری کی ضرورت نہیں رہی، ورنہ ایک دور میں سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے 1988ء کا اپنا پہلا الیکشن اسی علاقے سے لڑا تھا۔ جبکہ، یہی وہ لیاری تھا جہاں بے نظیر نے اپنے ولیمے کی تقریب منعقد کی تھی اور لیاری والوں کو خاص طور پر مدعو کیا تھا۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر لیاری کی سیٹ اس بار پی پی کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے تو یہ بہت بڑا اپ سیٹ ہوگا، کیوں کہ لیاری، پی پی کے سنہ 1967ء میں تشکیل کے بعد سے اب تک وہی جیتتی آئی ہے۔ اسے گڑھی خدا بخش کے بعد پی پی کا دوسرا گھر کہا جاتا ہے۔
پی پی کے کچھ ناراض جانثار رہنماوٴں کا کہنا ہے کہ پارٹی نے جرائم پیشہ افراد سے ہاتھ ملا لیا ہے۔ وہ پی پی کے کبھی بھی امیدوار نہیں ہو سکتے۔ ایک دیرینہ کارکن کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ میں نے بھٹو کے ساتھ بھی کام کیا ہے اور اس کی بیٹی بے نظیر کے ساتھ بھی کام کیا ہے۔ لیکن، اب ایسا لگتا ہے کہ لیاری کی گلیوں میں پی پی اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے۔
لیاری میں پی پی مخالف مہم بھی جاری ہے۔ پی اے سی ان تمام جماعتوں کے ساتھ اجلاس اور کارنر میٹنگز کرتی رہی ہے جو پی پی کی مخالف ہیں۔ علاقے میں پی پی رہنما کے انتخابی پوسٹر بھی پھاڑ دیئے گئے۔ جبکہ، جو تھوڑے بہت پوسٹر یا بینر لگے بھی ہیں تو وہ اس وجہ سے ہیں کہ پی پی نے پی اے سی سے اس سلسلے میں باقاعدہ مذاکرات کئے ہیں۔ پی پی نے سنہ 2011ء میں پیپلز امن کمیٹی پر پابندی لگا دی تھی۔
اس علاقے سے اس بار پی پی کا کوئی بھی بڑا سیاست دان میدان میں نہیں ہے۔ اس کے بجائے پی پی پی نے پیپلز امن کمیٹی سے تعلق رکھنے والے تین افراد کو قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر انتخاب لڑنے کے لئے ٹکٹس دیئے ہیں۔ لیکن، ان تینوں افراد کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ پی پی سے زیادہ پیپلز امن کمیٹی اور اس کے رہنما عذیر بلوچ کے جانثار ہیں۔
خود عذیر بلوچ نے انگریزی اخبار’ ٹریبیون‘ کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے،’مجھے پی پی پی پر اعتبار نہیں رہا۔ نہ ہی میں اس پارٹی کا کبھی ممبر رہا ہوں اور نہ مستقبل میں ایسا کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔‘
دراصل، لیاری میں ہونے والے حالیہ پولیس آپریشنز اور پیپلز امن کمیٹی کے رہنماوٴں کے خلاف مقدمات سے یہاں کے لوگ پیپلز پارٹی سے سخت نالاں ہیں۔ پی اے سی نے پی پی کارکنوں کا علاقے میں داخلہ تک بند کردیا ہے۔ اب تو یہ لوگ مستقبل میں بلاول بھٹو کی جانب سے لیاری کی نشست سے انتخاب لڑنے کے بھی مخالف ہیں۔
لوگوں کو شکایت ہے کہ پی پی پی کو اب لیاری کی ضرورت نہیں رہی، ورنہ ایک دور میں سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے 1988ء کا اپنا پہلا الیکشن اسی علاقے سے لڑا تھا۔ جبکہ، یہی وہ لیاری تھا جہاں بے نظیر نے اپنے ولیمے کی تقریب منعقد کی تھی اور لیاری والوں کو خاص طور پر مدعو کیا تھا۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر لیاری کی سیٹ اس بار پی پی کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے تو یہ بہت بڑا اپ سیٹ ہوگا، کیوں کہ لیاری، پی پی کے سنہ 1967ء میں تشکیل کے بعد سے اب تک وہی جیتتی آئی ہے۔ اسے گڑھی خدا بخش کے بعد پی پی کا دوسرا گھر کہا جاتا ہے۔
پی پی کے کچھ ناراض جانثار رہنماوٴں کا کہنا ہے کہ پارٹی نے جرائم پیشہ افراد سے ہاتھ ملا لیا ہے۔ وہ پی پی کے کبھی بھی امیدوار نہیں ہو سکتے۔ ایک دیرینہ کارکن کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ میں نے بھٹو کے ساتھ بھی کام کیا ہے اور اس کی بیٹی بے نظیر کے ساتھ بھی کام کیا ہے۔ لیکن، اب ایسا لگتا ہے کہ لیاری کی گلیوں میں پی پی اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے۔
لیاری میں پی پی مخالف مہم بھی جاری ہے۔ پی اے سی ان تمام جماعتوں کے ساتھ اجلاس اور کارنر میٹنگز کرتی رہی ہے جو پی پی کی مخالف ہیں۔ علاقے میں پی پی رہنما کے انتخابی پوسٹر بھی پھاڑ دیئے گئے۔ جبکہ، جو تھوڑے بہت پوسٹر یا بینر لگے بھی ہیں تو وہ اس وجہ سے ہیں کہ پی پی نے پی اے سی سے اس سلسلے میں باقاعدہ مذاکرات کئے ہیں۔ پی پی نے سنہ 2011ء میں پیپلز امن کمیٹی پر پابندی لگا دی تھی۔