لاہور کی احتساب عدالت نے آمدن سے زائد اثاثوں اور آف شور کمپنی کیس میں گرفتار پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما عبدالعلیم خان کو 15 فروری تک جسمانی ریمانڈ پر قومی احتساب بیورو (نیب) کے حوالے کر دیا ہے۔
دریں اثنا، علیم خان نے الزام عائد کیا ہے کہ انہیں چیئرمین نیب کی ناراضگی کی وجہ سے گرفتار کیا گیا ہے۔
علیم خان کو گزشتہ روز نیب حکام نے لاہور میں گرفتار کیا تھا جس کے بعد انہیں جمعرات کو احتساب عدالت کے جج سید نجم الحسن کے سامنے پیش کیا گیا۔
نیب کے پراسیکیوٹر وارث جنجوعہ نے عدالت کو بتایا کہ 2003ء میں عبدالعلیم خان نے صوبائی وزیر کی حیثیت سے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا تھا۔
پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ عبدالعلیم خان کا 2002ء میں 190 لاکھ روپے کا بانڈ نکلا تھا۔ دس کروڑ نوے لاکھ ان کے والد کو بیرونِ ملک سے آمدن ہوئی تھی مگر اس کے بھیجنے والے کا پتا نہیں ہے۔
پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ علیم خان کی والدہ کے لیے بھی 2012ء میں 19 کروڑ 80 لاکھ سے زائد رقم بیرونِ ملک سے آئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ نیب علیم خان کے بانڈ کو تسلیم کرتا ہے۔ لیکن، باہر سے ہونے والی آمدن پر شبہات ہیں۔
نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو مزید بتایا کہ عبدالعلیم خان نے 2018ء میں 80 کروڑ 70 روپے کے اثاثے ظاہر کیے ہیں جو ان کی آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ملزم سے مزید تفتیش کے لیے 15 روزہ جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔
عبدالعلیم خان کے وکیل ملک پرویز اور اظہر صدیق نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نیب نے جب بھی بلایا عبدالعلیم خان پیش ہوتے رہے ہیں۔
وکیل نے عدالت سے کہا کہ تمام کاغذات ریکارڈ پر موجود ہیں۔ لہذا، نیب کی جسمانی ریمانڈ کی استدعا کو مسترد کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ نیب نے آج تک آف شور کمپنیوں سے متعلق ایک بھی ثبوت پیش نہیں کیا۔ پبلک آفس ہولڈر ہونا کوئی جرم نہیں۔ انہوں نے آج تک عہدے کا غلط استعمال نہیں کیا۔ علیم خان کاروبار کرتے ہیں۔
دورانِ سماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے گرفتار رہنما نے خود بھی اپنے حق میں دلائل دیے اور عدالت کو بتایا کہ بدھ کو نیب کے بلوانے پر انہوں نے تفتیشی افسران سے مکمل تعاون کیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ نیب نے اُنہیں جو سوال نامہ دیا تھا وہ تین سوالات پر مشتمل تھا۔ ڈیرھ گھنٹہ مسلسل اُن سے تفتیش کی گئی اور سوالات پہ سوالات کیے گئے۔ نیب اُنہیں ایسی کوئی دستاویز نہیں دکھا سکا جس سے وہ گناہ گار ثابت ہو سکیں۔
علیم خان نے کہا کہ اُنہوں نے اپنے تمام اثاثے ڈکلیئر کیے ہیں اور تفتیشی افسران کے تمام سوالات کو جواب دیا ہے۔ ان کے بقول، انہیں جن باتوں کا علم نہیں تھا ان کے جوابات جمع کرانے کا وقت مانگا۔ لیکن، نیب حکام نے کہا کہ چیئرمین نیب آپ سے ناراض ہوچکے ہیں۔ لہذا، آپ کو گرفتار کرنا ہوگا۔
علیم خان نے عدالت میں دعویٰ کیا کہ انہیں بتایا گیا کہ انہوں نے ایک خط نیب کو بھیجا تھا جس پر چیئرمین ناراض ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا محض ناراضگی پر بھی گرفتار کیا جاتا ہے؟
عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد عبدالعلیم خان کو نو روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کر دیا۔ عدالت نے نیب کو 15 فروری کو دوبارہ علیم خان کو احتساب عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
عبدالعلیم خان پاکستان تحریکِ انصاف کے سینئر رہنما اور پنجاب حکومت میں سینئر وزیر ہیں جنہیں قومی احتساب بیورو لاہور نے بدھ کو گرفتار کیا تھا۔
نیب کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق عبدالعلیم خان کو پاناما اسکینڈل کی تحقیقات میں پیش رفت کے تحت آف شور کمپنی، آمدن سے زائد اثاثوں اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات میں گرفتار کیا گیا ہے۔
تحریکِ انصاف کے رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ علیم خان نے اپنی گرفتاری کی بعد وزارت سے استعفیٰ دے دیا ہے۔