رسائی کے لنکس

'آئی بی' اہلکار کی درخواست پر وزارت داخلہ سے جواب طلب


انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) اور حکومت کے عہدیداروں کی طرف سے تاحال اس معاملے پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ملک کے سول انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے ایک اہلکار کے طرف سے اپنے ہی ادارے کے اعلیٰ عہدیداروں کے خلاف عائد کیے جانے والے الزامات کی تحقیقات فوج کے انٹیلی جنس کے ادارے 'آئی ایس آئی' (انٹر سروسز انٹیلی جنس) سے کروانے کے درخواست کو مسترد کرتے ہوئے وزارت داخلہ کو اس معاملے پر وضاحت پیش کرنے کا کہا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے بدھ کو اس معاملے کی سماعت کے دوران کہا کہ دونوں ادارے بظاہر ’'کھینچا تانی'‘ میں ملوث نظر آتے ہیں۔ تاہم، انہوں نے وزارت داخلہ کو 'آئی بی' کے ایک اسسٹنٹ سب انسپکٹر کی طرف سے دائر کردہ درخواست پر سیکرٹری داخلہ کو وضاحت پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔

واضح رہے کہ 'آئی بی' کے ایک اہلکار نے اپنے ہی ادارے کے بعض اعلیٰ عہدیداروں پر دہشت گردوں سے رابطے اور انھیں تحفظ دینے کے الزامات عائد کرتے ہوئے عدالت عالیہ سے رجوع کیا تھا۔

آئی بی کے حاضر سروس اسسٹنٹ سب انسپکٹر ملک مختار احمد شہزاد کے وکیل بیرسٹر مسرور شاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے بدھ کو دوران سماعت کہا کہ" وہ حکومت پاکستان سے پہلے اس بات کی وضاحت کرنے کو کہتے ہیں کہ درخواست گزار کے بقول، اگر حکومت کو تمام شواہد فراہم کیے گئے تو حکومت نے اس معاملے کی چھان بین کے لیے کیا اقدامات کیے اور اگر کوئی اقدمات نہیں کیے گئے تو وضاحت کی جائے کہ ایسا کیوں نہیں کیا گیا ہے۔"

بیرسٹر مسرور شاہ نے کہا کہ عدالت نے سیکرٹری داخلہ کو آئندہ 10 روز میں اس بارے میں جواب داخل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے اس معاملے کی آئندہ سماعت 9 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔

درخواست گزار نے دعویٰ کیا تھا کہ کہ دوران سروس بعض اعلیٰ عہدیداروں کے مبینہ طور دہشت گردی میں ملوث ہونے کے مبینہ شواہد ان کے نظر سے گزرے اور اس بارے میں انھوں نے اپنے اعلیٰ افسران کے علاوہ وزیراعظم کے دفتر سے بھی اس معاملے کو اٹھایا۔ لیکن، ان کے بقول، اس معاملہ پر کارروائی نہ ہونے پر انھوں نے عدالت عالی سے رجوع کیا۔

انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) اور حکومت کے عہدیداروں کی طرف سے تاحال اس معاملے پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے کہ نچلی سطح پر عسکریت پسند عناصر سے ہمدردی رکھنے والے بعض اہلکار موجود ہوں۔ لیکن، جتنے اعلیٰ عہدیداروں کی طرف سے شدت پسند عناصر کی حمایت کا دعویٰ کیا جا رہا ہے ایسا بظاہر ممکن نہیں۔

XS
SM
MD
LG