پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کی ہائی کورٹ نے وزیر اعظم عمران خان کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کی توہین عدالت کیس میں غیر مشروط معافی قبول کرلی ہے۔
عدالت نے جمعے کو سماعت کے دوران فردوس عاشق اعوان کو دیا گیا توہین عدالت کا نوٹس واپس لیتے ہوئے اُنہیں 'کریمنل توہین عدالت' کا نیا نوٹس جاری کر دیا ہے۔
فردوس عاشق اعوان نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی طبی بنیادوں پر آٹھ ہفتوں کے لیے سزا معطلی کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ "نواز شریف کو ریلیف دینے کے لیے شام کو خصوصی طور پر عدالت لگائی گئی۔"
معاون خصوصی برائے اطلاعات کے اس بیان پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے توہین عدالت کے نوٹس پر سماعت کی۔ دوران سماعت جج نے اُنہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے تمسخر اُڑایا کہ کاش عام لوگوں کے بارے میں بھی عدالت فیصلے کرے، بہتر ہوتا کہ آپ عدالتوں کو سیاست سے دور رکھتیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا "آپ نے کہا کہ عدالتیں عام لوگوں کے لیے کچھ نہیں کرتیں، ہم یہاں بیٹھے ہی عام لوگوں کے لیے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ ڈیل ہو گئی، پوچھیں کیا کسی نے ججز کو اپروچ کیا ہے؟
فاضل جج نے فردوس عاشق اعوان کو مزید کہا کہ جب آپ عدلیہ سے لوگوں کا اعتماد اٹھانے کی کوشش کریں گی تو یہ لوگوں کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔ عدالتی فیصلے سے کچھ لوگ خوش ہوتے ہیں اور کچھ خفا ہوتے ہیں۔
'دو وجوہات پر آپ کو نوٹس جاری کیا'
جسٹس اطہر من اللہ نے معاون خصوصی برائے اطلاعات کو کہا "آپ کو دو وجوہات پر نوٹس جاری کیا ہے۔ زیر التوا معاملے پر جس میں عدالت نے عبوری حکم جاری کیا، آپ نے اپنے بیان سے اثر انداز ہونے کی کوشش کی اور دوسرا یہ کہ آپ نے زیر سماعت مقدمے کو متنازع بنانے کی کوشش کی۔"
فاضل جج نے کہا کہ "آپ میرے بارے میں جو مرضی کہیں مگر یہاں عدالت کو اسکینڈلائز کرنے کا معاملہ ہے۔"
جسٹس اطہر من اللہ کا مزید کہنا تھا کہ آپ حکومتی نمائندہ ہیں، آپ سے اس بات کی توقع نہیں تھی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ کی ہدایت پر فردوس عاشق اعوان نے کمرہ عدالت میں ہائی کورٹ رولز پڑھ کر سنائے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے معاون خصوصی برائے اطلاعات کو کہا "آپ نے کبھی پتہ کیا ہے کہ اس کورٹ نے آج تک کتنے کیسز نمٹائے؟ مجھے اپنے ساتھی ججز پر فخر ہے، ہائی کورٹ نے تیزی سے کیسز نمٹائے۔"
'آئندہ مزید محتاط رہوں گی'
اس موقع پر فردوس عاشق اعوان نے عدالت سے استدعا کی کہ انہیں بھی بات کرنے کی اجازت دی جائے۔ عدالت کی اجازت کے بعد فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتی کہ کوئی ایسی بات کہوں جس سے عدلیہ کی توقیر میں کمی ہو جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدلیہ کی توقیر میں کمی آپ کے الفاظ سے نہیں ہوتی۔
فردوس عاشق اعوان نے کہا "میں عدالت سے غیر مشروط معافی مانگتی ہوں اور اس سلسلے میں آئندہ مزید محتاط رہوں گی۔"
عدالت نے معاون خصوصی برائے اطلاعات کی معافی قبول کرلی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کے خلاف توہین عدالت کا پرانا 'شو کاز' نوٹس واپس لیا جا رہا ہے اور 'کریمنل توہین عدالت' کا نیا نوٹس جاری کیا جا رہا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت کو مطمئن کریں کہ آپ نے جان بوجھ کر عدلیہ کی تضحیک اور زیر سماعت کیس پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کی۔
'آئندہ سماعت کی تاریخ تبدیل نہیں ہوگی'
انہوں نے مزید کہا کہ جب فیئر ٹرائل کے اصولوں کی خلاف ورزی کی جائے تو اس معاملے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
عدالت نے فردوس عاشق اعوان کو پیر تک تحریری جواب داخل کرانے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت منگل کو مقرر کردی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے فردوس عاشق اعوان کو کہا کہ آپ کو یہاں سے ڈسٹرکٹ کورٹس لے کر جائیں گے، وہاں دیکھیں ججز اور وکلا صاحبان کس طرح کام کر رہے ہیں اور عوام کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ یہ عدلیہ نہیں بلکہ 30 سال سے انتظامیہ کی غفلت کا نتیجہ ہے۔
منگل کو توہین عدالت کی کارروائی مختص ہونے پر فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ اس روز کابینہ کی میٹنگ ہوتی ہے اس دن سماعت نہ رکھیں۔ جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ ڈسٹرکٹ کورٹس میں ہی کابینہ میٹنگ رکھوائیں تاکہ وہ وہاں کے حالات دیکھیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ آئندہ سماعت کی تاریخ تبدیل نہیں کی جائے گی۔