دنیا کے دو بڑے ممالک امریکہ اور چین کے حوالے سے سامنے آنے والی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کی جاسوسی کی کوشش میں بھر پور انداز میں مصروف ہیں۔
امریکی اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ نے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ واشنگٹن ڈی سی اور بیجنگ میں قائم حکومتیں ایک دوسرے کی طاقت کو چیلنج کرنے کے لیے خطرناک حد تک جاسوسی کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق امریکہ کے خفیہ ادارے سینٹرل انٹیلی جینس ایجنسی (سی آئی اے) کے اہلکاروں سے کیے گئے انٹرویوز میں سامنے آیا کہ صدر جو بائیڈن کی ایما پر چین کو امریکی طاقت کو عالمی طور پر چیلنج کرنے سے روکنے کے لیے ایک گوناگوں جاسوسی کی پالیسی اختیار کی گئی ہے جب کہ بیجنگ بھی امریکہ میں ہر شعبے میں جاسوسی اور معلومات جمع کرنے کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک مصنوعی ذہانت کی اپنی اپنی ٹیکنالوجی بنانے میں مصروف ہیں جو ان کے لیے جاسوسی اور عسکری سطح پر سود مند ثابت ہو سکتی ہے۔
امریکہ کا تحقیقاتی ادارہ فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) ملک بھر میں چین کے جاسوسوں کی تلاش میں مصروف ہے۔
اب تک 12 ایسے مواقع سامنے آئے ہیں جہاں چین کے جاسوسوں کی نشاندہی ہو سکی ہے۔
سی آئی اے اور پینٹاگون نے انٹیلی جنس معلومات جمع کرنے کے ایسے سینٹرز قائم کیے ہیں جن کی توجہ چین کی جاسوسی کرنا ہے۔
اس جاسوسی کے لیے الیکٹرانک کمیونیکیشن کی نگرانی سمیت چین کے ساحلوں پر طیاروں کی مدد سے معلومات جمع کرنے کے اقدامات شامل ہیں۔
’نیویارک ٹائمز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رے نے بتایا کہ چین کے ساتھ جاری جاسوسی کی کوشش امریکہ اور ماضی کے سوویت یونین کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ چین کی بڑی آبادی اور اس کی مضبوط معیشت اسے امریکہ کے خلاف جاسوسی کا ایک بڑا نیٹ ورک قائم کرنے میں مدد دیتی ہے۔
ایف بی آئی کے ڈائریکٹر نے بتایا کہ میدانِ عمل میں وہ چین کے سامنے بہت کم تعداد میں ہیں۔
انہوں نے اسے موجودہ نسل کے لیے ایک بڑا چیلنج قرار دیا۔
اخبار کے مطابق چین نے سیٹلائٹ کے ذریعے جاسوسی کے میدان میں کافی ترقی کی ہے اور امریکہ نے دنیا بھر کے ممالک کو خبردار کیا ہے کہ اگر وہ چین کی ٹیکنالوجی کے استعمال کو ترک نہیں کرتی تو ایسے میں چین کو اپنی سرویلنس بڑھانے میں مدد ملے گی۔
جہاں امریکہ اور چین مصنوعی ذہانت کے میدان میں بھی نبرد آزما ہیں۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ اس میدان میں آگے ہے۔
امریکی انٹیلی جینس حکام کا کہنا ہے کہ چین امریکہ بھر میں اپنے جاسوس رکھنے کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہے۔
اہلکاروں نے بتایا کہ چینی ایجنٹس نے اس مقصد کے لیے ’لنکڈ ان‘ کا بھی استعمال کیا ہے۔
کرسٹوفر رے کا کہنا ہے کہ اس خطرے کو بھانپنے ہوئے امریکی ایجنسیوں نے ایجنٹس پکڑنے کے آپریشنز کو بڑھا دیا ہے۔
ان کا دعویٰ تھا کہ ایف بی آئی اس وقت ایسے ے ہزاروں کیسز پر کام کر رہی ہے۔