انسانی حقوق کے ادارے، ’ہیومن رائٹس ڈفنس‘ کی چیرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ کا کہنا ہے کہ کراچی میں رینجرز کی فائرنگ میں ملوث اہل کاروں کو سنایا جانے والا سزا کا فیصلہ ’خوش آئند‘، ’بہترین‘ اور ’آئین کے عین مطابق‘ہے۔
جمعے کواِس عنوان پر ’وائس آف امریکہ ‘سے گفتگو میں اُنھوں نے کہا کہ انسانی حقو کے عملبردار لوگ اِسے اچھی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔اُنھوں نے کہا کہ جو بھی قانون کو اپنے ہاتھ میں لے گا، چاہے اُس کا تعلق قانون نافذ کرنے والے ادارے سے ہی کیوں نہ ہو، اُسے کیفرِ کردار تک پہنچانا بہت ضروری ہے، تاکہ آئندہ کے لیے ایک سبق ہو۔
آمنہ جنجوعہ نے کہا کہ سزا کے فیصلے کے بعد قانون کا نفاذ کرنے والا کوئی اہل کار کبھی بھول کر بھی کسی عام شہری کی زندگی کو اِس طرح سے ختم کرنے کا نہیں سوچے گا، ’جِس بے دردی سے‘ ملوث اہل کاروں نے کیا تھا۔
اِس فیصلے پر اپنا ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے معروف سیاسی و دفاعی تجزیہ کار حسن عسکری رضوی نے کہا کہ واردات کا ثبوت اتنا واضح تھا کہ فیصلے پر ہمیں کوئی حیرانی نہیں ہوئی۔ اُن کے الفاظ میں:’اِس سے کم از کم یہ بات تو پتا لگی ہے کہ جو قانون کا نفاذ کرنے والے ادارے ہیں اُن کو بھی قانون کے دائرے میں رہ کر اپنا کام کرنا ہوتا ہے اور اگر قانون کو پھلانگا جائے گا تو اُنھیں بھی سزا مل سکتی ہے‘۔
فیصلے کے اگلے قانونی مراحل پر روشنی ڈالتے ہوئے، جسٹس (ر) طارق محمود نے بتایا کہ انسدادِ دہشت گردی کے قانون کے تحت یہ مقدمہ چلا اورسزا ہونے کے بعداِس کا دوسرا مرحلہ یہ ہوگا کہ اِس میں ہائی کورٹ میں اپیل داخل ہوگی جو دو جج صاحبان سنیں گے آیا یہ فیصلہ درست ہے یا غلط یا اِس میں کسی ردوبدل کی ضرورت ہے۔ اُس کے بعد، عدالتِ عظمیٰ میں اِس پر ایک عرضداشت دائر ہوسکتی ہے۔
یہ معلوم کرنے پر کہ اِس میں کتنا عرصہ درکار ہوگا، جسٹس (ر)طارق محمود نے کہا کہ متعلقہ قانون میں لکھا ہوا ہے کہ اِس کیس میں جلد سے جلد فیصلہ کیا جائے گا۔ اُنھوں نے کہا کہ چونکہ یہ ایک ’ہائی پروفائیل‘ کیس ہے اِس لیے غالب امکان یہی ہے کہ اِس کو تیزی سے فیصل کیا جائے گا۔
اِس استفسار پر کہ کیا اِس فیصلے سے ادارے کے اہل کاروں کے حوصلے پر کوئی اثر پڑے گا، آمنہ جنجوعہ نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والوں کو اِس چیز کا احساس ہونا چاہیئے کہ یہ اُن کے ادارے کی طرف سے ایک غلطی تھی جِس کا ادراک کرتے ہوئے وہ چاہیں گے کہ پھر کبھی ایسی غلطی سرزد نہ ہو۔
آمنہ جنجوعہ نے کہا کہ اِس فیصلے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو احساس ہوگا کہ اُن کا کام شہریوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنا نہیں بلکہ اُن کی زندگیاں بچانا ہے، جِس سے جرائم کی روک تھام میں مدد ملے گی۔
لیکن حسن عسکری رضوی کا کہنا تھا کہ اگرچہ اِس فیصلے سے ایک حد تک کراچی میں جرائم کی روک تھام میں مدد مل سکتی ہے لیکن کراچی کے موجودہ حالات کے تناظر میں وہ اِس بارے میں’ زیادہ توقعات‘ نہیں رکھتے۔
اُن کا کہنا تھا کہ کراچی میں جرائم کی نوعیت کچھ اِس قسم کی ہے اور کچھ اِس تیزی سے جرائم ہو رہے ہیں کہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جرائم پیشہ لوگ ڈر جائیں گے، کیونکہ، اُن کے بقول، ’ہر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اُس تک قانون نہیں پہنچ سکتا‘۔ اُنھوں نے کہا کہ یہی رویہ ہے جِس کی وجہ سے کراچی میں امن و امان ’بہت خراب‘ ہوگیا ہے۔
ڈاکٹر عسکری رضوی نے کہا کہ اگرچہ ابھی اِس فیصلے پر اپیل باقی ہے اور کوئی حتمی فیصلہ ہونا ہے، تاہم جِن لوگوں کو شکایات تھیں اِس فیصلے سے اُن کی شکایات ’دور ہوجانی چاہئیں‘۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: