رسائی کے لنکس

کراچی کے حالات کے بارے میں سیاسی راہنماؤں اورتجزیہ کاروں کی مختلف آراٴ


کراچی کے حالات کے بارے میں سیاسی راہنماؤں اورتجزیہ کاروں کی مختلف آراٴ
کراچی کے حالات کے بارے میں سیاسی راہنماؤں اورتجزیہ کاروں کی مختلف آراٴ

کراچی کی صورتِٕ حال خراب ہے، جسے،رکن قومی اسمبلی پلوشہ بہرام کے بقول، تمام پارٹیاں، اور تمام اسٹیک ہولڈرز مل کر حل کرسکتے ہیں

کراچی میں امن و امان کے مسئلے پر قومی اسمبلی میں جو بحث ہورہی ہے اُس کے بارے میں سیاسی راہنماؤں اور تجزیہ کاروں کے خیالات ایک دوسرے سے خاصے مختلف ہیں۔

ایم کیو ایم کے رکنِ قومی اسمبلی وسیم احمد کا کہنا تھا کہ،’ اِس بحث کا نہ کوئی نتیجہ نکلے گا اور نہ ہی کوئی فائدہ ہوگا‘۔اِس کی وجہ، وسیم احمد کے بقول، حکومت کا ’غیر سنجیدہ رویہ‘ ہے۔

اُن کے الفاظ میں: ’آج بھی یہی حال ہے، کل بھی یہی حال تھا کہ کوئی سنجیدہ نہیں۔ کراچی میں آج بھی آٹھ ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ کل (یہ ہلاکتیں)28،29تک پہنچ گئی تھیں۔ مگر حکومت کے کان پہ کوئی جوں نہیں رینگ رہی۔ میں سمجھتا ہوں اسمبلی کے اجلاس کو ملتوی کرکے سارے ارکان کویہاں اسلام آباد میں بیٹھنے کے بجائے کراچی اور کوئٹہ کے متاثرہ علاقوں میں جانا چاہیئے۔‘

اُس کے برخلاف پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی پلوشہ بہرام کا کہنا تھا کہ کراچی کی صورتِٕ حال خراب ہے، جسے، اُن کے بقول، تمام پارٹیاں، تمام اسٹیک ہولڈرز ذمہ دار بھی ہیں اور مل کر اِسے حل کرسکتے ہیں۔ اِس الزام کا جواب دیتے ہوئے کہ حکومت سنجیدہ نہیں، اُنھوں نے کہا کہ ’ اصل ذمہ داری اُس پارٹی کو اٹھانی پڑتی ہے جو اقتدار میں ہے‘۔

وزیرِ داخلہ رحمٰن ملک نے کراچی میں امن و امان کے بارے میں ایک اجلاس کی صدارت کی اور اُس کے بعد اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے وہاں کی جانے والی کارروائی کے بارے میں بھی اظہارِ خیال کیا۔اُن کے الفاظ میں: ’سخت ایکشن ہوگا ، اور میں کچھ نہیں بولوں گا۔ زیادہ ایکشن ہوتا ہوا آپ دیکھیں گے‘۔

’ ہم نے وعدہ کیا تھا۔ کٹی پہاڑی پہ ایکشن ہوا، اور آج میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں، جِن علاقوں میں (ایکشن) ہوا ہے وہ علاقے ہم نے استعمال کیے ہیں۔ ہم نے ایکشن کرنا ہے۔ میں آپ کو بتاؤں گا ایکشن ہوتا ہوا۔ اور، وہ قوم دیکھے گی۔‘

تاہم، وسیم احمد اُس سے قطعاً متاثر نظر نہیں آئے۔ اُن کا کہنا تھا کہ جب تک مسئلے کے حل کی خواہش نہیں ہوگی اِن باتوں سے کچھ فائدہ حاصل نہ ہوگا۔ اُن کے الفاظ میں: ’یہ صرف وقت پاس کرنے (کا معاملہ) ہے۔ یہ جو اُنھوں نے اختیارات ایف سی کو دیے ہیں، یہ پہلے بھی رینجرز کے پاس ہی تھے۔ آپ جتنے مرضی پاورز دے دیں۔ جب وہاں سیاسی عزم نہیں ہوگا۔ جب ذمہ داری نہیں ہوگی۔ جب نیتیں صاف نہیں ہوں گی۔ آپ ریجنرز کو پاور دے دیں، پولیس کو پاورز دے دیں۔ جب آپ آرڈر ہی نہیں کروگے، جب پانچ دِن بعد کٹی پہاڑی پہ جو سوا سو آدمی مرچکے، اُس کے بعد آپ رینجرز کو بھیج رہے ہیں وہاں، تو فائدہ کیا پاورز دینے کا؟‘

ممتاز سیاسی تجزیہ کار حسن عسکری رضوی کا کہنا تھا کہ صرف پارلیمنٹ کے اجلاس سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔

اُن کے الفاظ میں ’پارلیمنٹ میں بحث سے اِس لیے فرق نہیں پڑے گا کہ ہر پارٹی اپنے آپ کو درست اور دوسرے کو ذمہ دار اور غلط سمجھتی ہے۔ اور کراچی میں یہ ہورہا ہے۔ اب اِن پارٹیوں نے امن مارچ شروع کی ہوئی ہے۔۔۔ جِن علاقوں میں شورش ہے وہاں کوئی نہیں جاتا۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ جب تک یہ تمام کی تمام پارٹیاں مل کر کام نہیں کریں گی، کراچی کی صورتِ حال بہتر نہیں ہوگی۔‘

ڈاکٹر عسکری رضوی نے کے بقول، ’حکومت کس کو پکڑے؟ مسئلہ یہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت کے پاس لڑاکا فورس موجود ہے۔ اور پھر کس کو پکڑے؟ جس کو پکڑا جائے وہ پارٹی کہتی ہے کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ جب تک یہ اِکٹھے نہیں ہوں گے، کراچی کے حالات مکمل طور پر بہتر نہیں ہوسکتے۔‘

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG