رسائی کے لنکس

'لگتا ہے این ڈی ایم اے کو ہی ختم کرنا پڑے گا!'


پاکستان سپریم کورٹ کی عمارت۔
پاکستان سپریم کورٹ کی عمارت۔

چیف جسٹس پاکستان، جسٹس گلزار احمد نے کرونا وائرس از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ لگتا ہے این ڈی ایم اے کو ہی ختم کرنا پڑے گا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کرونا، سیلاب، ٹڈی دل اور سب کچھ این ڈی ایم اے کو سونپ دیا گیا ہے۔

عدالتی تنقید کے بعد، اٹارنی جنرل نے این ڈی ایم اے کی طرف سے عدالت میں جمع کرایا گیا جواب واپس کرنے کی درخواست کر دی، جو عدالت نے منظور کرلی۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے کرونا وائرس از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

کیس کی سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے کمرہ عدالت میں موجود افراد کو ہدایت کی کہ عدالت میں سماجی فاصلے کو برقرار رکھا جائے۔

'این ڈی ایم اے بند کرنے کی سفارش کردیں؟'

چیف جسٹس نے این ڈی ایم اے کے ذریعے سامان امپورٹ کرنے والی کمپنی کے بارے میں استفسار کیا کہ الحفیظ کمپنی کی مشینری کو امپورٹ کی اجازت دینے کی دستاویز،ویکسین اور ادویات کی امپورٹ کی دستاویز، جہاز چارٹرڈ کرنے اور اس کی ادائیگیوں کی تفصیلات کہاں ہیں۔

ڈائریکٹر ایڈمن این ڈی ایم اے نے عدالت کو بتایا کہ الحفیظ کمپنی کی مشینری این ڈی ایم اے نے امپورٹ نہیں کی۔

عدالت کا کہنا تھا کہ این ڈی ایم اے نے ابھی تک اہم دستاویز جمع نہیں کرائیں، 3 بار حکم دینے کے باوجود دستاویز کیوں نہیں دیئے گئے۔ ابھی تک الحفیظ کمپنی کا مالک سامنے نہیں آسکا، اصل مسئلہ کسٹم اور دیگر قوانین پر عمل نہ ہونا ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کرونا، سیلاب، ٹڈی دل اور سب کچھ این ڈی ایم اے کو سونپا گیا ہے۔ دستاویزات کے مطابق، مشینری کی قیمت ظاہر نہیں کی گئی۔ این ڈی ایم اے کو فری ہینڈ اور بھاری فنڈز دیئے گئے تاکہ کرونا سے لڑا جا سکے۔ این ڈی ایم اے عدالت اور عوام کو جوابدہ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جہاز چارٹر کرانے کے لئے ایک کروڑ سات لاکھ سے زائد نقد رقم ادا کی گئی۔ کراچی میں اتنا کیش کوئی کیسے دے سکتا ہے۔ لگتا ہے ہمارے ساتھ کسی نے بہت ہوشیاری اور چالاکی کی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب یہ کیا تماشا چل رہا ہے؟ لگتا ہے این ڈی ایم اے کو ہی ختم کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ چیئرمین این ڈی ایم اے وضاحت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ این ڈی ایم اے کو ختم کرنے کے لئے سفارش کر دیں۔ شاید بہت کچھ غلط ہوا ہے جس پر پردہ ڈالنے کی کو شش کی جارہی ہے۔ کیوں نہ چیئرمین این ڈی ایم اے کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کردیں، کسی کو ایک روپے کا فائدہ نہیں پہنچنے دیں گے۔ اس پر اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ این ڈی ایم اے کے لوگ عدالت میں موجود ہیں۔ متعلقہ حکام کو عدالت کو مطمئن کرنا ہوگا۔ اٹارنی جنرل نے این ڈی ایم اے کے جمع شدہ جواب واپس لینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ دستاویز سمیت جامع جواب جمع کرائیں گے۔ جس پر عدالت نے این ڈی ایم اے کا جواب واپس دے دیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ملک کے اداروں کو شفاف انداز میں چلنا چاہیے، نقد ادائیگی اس کمپنی کو کی گئی جس کا کوئی واسطہ ہی نہیں تھا۔ لگتا ہے چین میں پاکستانی سفارتخانے نے چین کو نقد ادائیگی کی ہے، این ڈی ایم اے ٹڈی دل کے لئے جہاز اور مشینری منگوا رہا ہے، صرف زبانی نہیں دستاویز سے شفافیت دکھانی پڑے گی، کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ اربوں روپے کیسے خرچ کر رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے ایس ای سی پی سے الحفیظ کمپنی کی تمام تفصیلات طلب کرتے ہوئے تمام تفصیلات پر مبنی جامع جواب مانگ لیا۔

ادویات کی درآمد اور جعلی دوائیں

کمرہ عدالت میں ملک میں ادویات کی درآمد اور جعلی ادویات کا معاملہ بھی زیر بحث آیا، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ڈریپ نے نان رجسٹرڈ ادویات کی درآمد کی اجازت کیسے دی؟ جس پر چیئرمین ڈریپ نے کہا کہ ایمرجنسی میں ادویات اور مشینری درآمد کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں۔ بھارت سے آنے والی ادویات کی امپورٹ پر پابندی لگی تھی۔ تاہم، اب بھارت سے خام مال دوبارہ آرہا ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس اسپتال نے مشینری اور ادویات مانگی تھیں؟ بھارت سے آنے والی ادویات کون سی تھیں؟ بھارت سے آنے والی ادویات غیر قانونی تھیں اور اس کی حیثیت کیا تھی؟ جس پر اٹارنی جنرل نے اعتراف کیا کہ کابینہ نے چند ادویات کی اجازت دی لیکن امپورٹ بہت زیادہ ہوئیں۔ شہزاد اکبر نے رپورٹ جمع کرائی کہ اجازت کا غلط استعمال کیا گیا۔

جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ ڈریپ کی ناک کے نیچے جعلی ادویات مل رہی ہیں۔ ڈریپ کی ملی بھگت کے بغیر کوئی بھی دوا نہیں آسکتی۔ جعلی دوائی بیچنے والے کو پاکستان میں زیادہ سے زیادہ دو ہفتے کی سزا ہوتی ہے اور زیادہ سے زیادہ 10 ہزار روپے جرمانہ ہوتا ہے۔ جعلی ادویات بنانے والوں اور فروخت کرنے والوں کو سزائے موت ہونی چاہیے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ چیئرمین ڈریپ صاحب آپ اپنا کام کر ہی نہیں رہے۔ آپ نے سارا ملبہ صوبوں پر ڈال دیا، محکمہ صحت کا کام صرف خط لکھنا نہیں ہے۔ صرف خط ہی لکھنے ہیں تو وزارت صحت کا کیا فائدہ۔

اس پر ایڈیشنل سیکریٹری صحت سے مکالمے کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سیکرٹری صاحب آپ صرف لیٹر بازی ہی کرتے ہیں۔ خط لکھنے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ ہمیں عملی کام چاہیے بابوؤں والا کام نہیں۔ عدالت نے ڈریپ کی رپورٹ غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے امپورٹ کی گئی ادویات سے متعلق تمام تفصیلات طلب کرلیں۔

لگژری گاڑیاں

ٹڈی دل کے تدارک کے حوالے سے چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پنجاب حکومت کتنی لگژری گاڑیاں خرید رہی ہے؟ عدالت کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت نے بتایا نہیں کہ 500 ملین کی کونسی لگژری گاڑیاں امپورٹ کی جائیں گی؟ کوئی ایمبولینس ہے، کچرے گاڑی ہے یا پراڈو؟ کوئی معلوم نہیں۔ ڈونرز سے قرض لے کر گاڑیاں خریدی جاتی ہیں۔ افسران کہتے ہیں کھیتوں میں جانا ہے اس لئے بڑی گاڑی چاہیے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ گزشتہ سماعت پر پنجاب کی جانب سے یہ ہی کہا گیا کہ گاڑیاں نہیں منگوا رہے، پہلے بھی بی ایم ڈبلیو، ڈبل کیبن پراڈو خریدنے پر سپریم کورٹ نے حکم جاری کیا تھا۔ اب پنجاب حکومت دوبارہ 500 ملین کی گاڑیاں خرید رہی ہیں۔ کرونا کی وجہ سے ترقیاتی فنڈز تو جاری نہیں کر رہے پھر یہ گاڑیاں کیسے خریدی جا رہی ہیں؟ جس پر ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ پنجاب حکومت کوئی گاڑیاں امپورٹ نہیں کررہی۔ گزشتہ سال کتنی گاڑیاں خریدی گئیں اس کی معلومات ابھی نہیں ہیں۔

کرونا ازخود نوٹس کیس

سپریم کورٹ آف پاکستان نے کرونا کے پھیلاؤ کے حوالے سے ازخود نوٹس لے کر کارروائی کا آغاز کیا تھا۔

اسی نوٹس کے دوران عیدالفطر کے موقع پر عدالت کی طرف سے کاروبار کھولنے کے حوالے سے حکم نامہ بھی جاری کیا گیا۔

اس کیس میں اب تک این ڈی ایم اے کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے اور 25 جون کو ہونے والی سماعت کے موقع پر چیف جسٹس گلزار احمد نے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی کارکردگی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ اتھارٹی کے کام میں شفافیت نظر نہیں آرہی۔ اربوں روپے ادھر ادھر خرچ کیے جارہے ہیں۔

چیف جسٹس نے ملک میں ادویات کی فراہمی کے معاملے پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ معلوم نہیں این ڈی ایم اے کے اخراجات پر کوئی نگرانی ہے یا نہیں۔ این ڈی ایم اے باہر سے ادویات منگوا رہا ہے۔ معلوم نہیں یہ ادویات کس مقصد کے لیے منگوائی جارہی ہیں؟ جو ادویات باہر سے آ رہی ہیں۔ اس کی ڈرگ ریگیولٹری اتھارٹی سے منظوری ہونی چاہیے۔

XS
SM
MD
LG